جموں وکشمیر کے محکمہ تعلیم نے وادی کشمیر میں اپنے زونل دفاتر میں’ فرن‘ پہننے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس پابندی نے کشمیر میں ایک تنازعہ کی شکل اختیار کر لی ہے اور لوگ اس پر اپنا سخت ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے لیڈر عمر عبداللہ نے جہاں اس اقدام کو افسوسناک بتایا تو وہیں، کچھ دیگر نے اسے تہذیبی حملہ قرار دیا ہے۔
عمر عبداللہ نے اس پابندی کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے ٹویٹ کیا’’ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ فرن پر پابندی کیوں عائد کی گئی۔ یہ ایک افسوس ناک حکم نامہ ہے جس کا کلی طور پر کوئی مطلب نہیں‘‘ ۔ انہوں نے مزید لکھا’’ فرن موسم سرما کی سردیوں میں(خود کو) گرم رکھنے کا عملی طریقہ ہے، جبکہ یہ ہماری شناخت کا حصہ بھی ہے۔ اس حکم نامہ کو واپس لیا جائے‘‘۔
خیال رہے کہ شمالی کشمیر کے کپواڑہ میں زونل ایجوکیشن آفیسر لنگیٹ نے گزشتہ ہفتہ ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں ملازمین کو فرن پہننے پر پابندی عائد کی گئی۔ حکم نامہ میں کہا گیا’’ اس دفتر میں آنے والے تمام ملازمین سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ سرکاری دورے کے دوران معقول ملبوسات زیب تن کریں جبکہ ’’فرن‘‘، ٹروازر(پاجامے) اور سلیپر، چپلیں،پلاسٹک جوتے پہن کر نہ آنے کی تجویز دی جاتی ہے‘‘۔
یہ بھی پڑھیں: جموں وکشمیر ’سیکس ٹارشن ‘پر پابندی لگانے کے لئے قانون نافذ کرنے والی پہلی ریاستکشمیر میں فرن صدیوں سے مقامی روایت کا حصہ رہا ہے اور موسم سرما میں سردی سے بچنے کیلئے کشمیر میں اسے ایک ہتھیار کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔
سب سے پہلے پڑھیں نیوز18اردوپر اردو خبریں، اردو میں بریکینگ نیوز ۔ آج کی تازہ خبر، لائیو نیوز اپ ڈیٹ، پڑھیں سب سے بھروسہ مند اردو نیوز،نیوز18 اردو ڈاٹ کام پر ، جانیئے اپنی ریاست ملک وبیرون ملک اور بالخصوص مشرقی وسطیٰ ،انٹرٹینمنٹ، اسپورٹس، بزنس، ہیلتھ، تعلیم وروزگار سے متعلق تمام تفصیلات۔ نیوز18 اردو کو ٹویٹر ، فیس بک ، انسٹاگرام ،یو ٹیوب ، ڈیلی ہنٹ ، شیئر چاٹ اور کوایپ پر فالو کریں ۔