سیاچن گلیشیر میں برفانی تودے کی زد میں آئے تمام 10 جوان شہید

نئی دہلی۔ سیاچن میں برف کے پہاڑ کے نیچے دبے 10 ہندوستانی فوجیوں کو بچایا نہیں جا سکا ہے۔

نئی دہلی۔ سیاچن میں برف کے پہاڑ کے نیچے دبے 10 ہندوستانی فوجیوں کو بچایا نہیں جا سکا ہے۔

نئی دہلی۔ سیاچن میں برف کے پہاڑ کے نیچے دبے 10 ہندوستانی فوجیوں کو بچایا نہیں جا سکا ہے۔

  • IBN Khabar
  • Last Updated :
  • Share this:
    نئی دہلی۔ سیاچن میں برف کے پہاڑ کے نیچے دبے 10 ہندوستانی فوجیوں کو بچایا نہیں جا سکا ہے۔ اس سرحد پر ہمارے فوجی پاکستانیوں کی سازشوں کا مقابلہ کرتے ہیں، ان کو ہندوستان میں گھسنے سے روکنے کے لئے چوبیس گھنٹے تعینات رہتے ہیں لیکن وہاں برف کے درمیان -60 ڈگری کے درجہ حرارت کے بیچ اٹھنے والے برفانی طوفان سے مقابلہ انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ 19 مدراس ریجمنٹ کے یہ 10 بہادر سیاچن گلیشیر میں 19600 فٹ کی بلندی پر موجود سونم پوسٹ پر تعینات تھے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے ان بہادرجوانوں کے انتقال پر غم کا اظہار کیا ہے۔

    آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ سہاگ نے شہیدوں کی شہادت پر غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کے خاندان والوں کے ساتھ اظہار تعزیت کیا ہے۔ 48 گھنٹے بعد بھی ہندستانی فوج کی سياچن میں 20 ہزارفٹ پر فوجیوں کو تلاش کرنے کی مہم جاری ہے کیونکہ ابھی شہید ہوئے جوانوں کی لاشیں نہیں ڈھونڈی جا سکی ہیں۔

    سیاچن کے شمالی حصے میں واقع اس ہندستانی پوسٹ میں سب کچھ معمول تھا۔ لیکن شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اچانک اٹھے برف کے طوفان سے گلیشیر نے شاید کروٹ بدلی، زمین پھٹی اور برف نیچے کی طرف کھسک گئی۔ جب تک یہ 10 ہندوستانی کچھ سمجھ پاتے وہ برف میں دب گئے اور ہندستانی پوسٹ کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ یہ ایسا حادثہ تھا جس کی پیشین گوئی کر پانا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ہندستانی فوج کو جیسے ہی اس حادثے کی خبر ملی فورا ہی سیاچن کے اس ہندستانی چوکی کی جانب ریسکیو ٹیم کو بھیجا گیا لیکن خراب موسم کے درمیان ان 10 ہندوستانیوں کو محفوظ بچا پانا انتہائی مشکل تھا۔

    فوجیوں کو بچانے کے لئے فوج اور فضائیہ نے دوسرے دن بھی ہر ممکن کوشش کی۔ لیہ سے برف کاٹنے والے آلات بھیجے گئے۔ جس علاقے میں یہ حادثہ ہوا ہے وہاں رات کا درجہ حرارت گر کر -42 ڈگری اور دن میں -25 ڈگری تک ہو جاتا ہے۔ راحتی ٹیمیں خراب موسم سے جوجھتے ہوئے برف میں دبے فوجیوں کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہی تھیں لیکن فوجیوں کو بچایا نہیں جا سکا۔

    انیس ریجمنٹ کے ایک افسر اور 9 فوجیوں کی شناخت کا انکشاف اب تک نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم، سیاچن میں جانے والے فوجیوں کو وہاں رہنے اور برف کے درمیان زندہ رہنے کی خصوصی ٹریننگ دی جاتی ہے لیکن کہا جا رہا ہے کہ اکثر جب 21 ہزار فٹ کی بلندی پر 70 کلومیٹر طویل اور قریب 13 کلومیٹر تک چوڑا یہ گلیشیر جب بھی کھسکتا ہے تب اس میں بڑی دراڑیں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر ایسے ہی کسی دراڑ میں ہندستانی فوجی پھنس گئے ہوں گے تب ان تک پہنچ پانا تقریبا ناممکن ہے کیونکہ اکثر ان کی گہرائی 300 فٹ تک ہو سکتی ہے اور درار کے اندر کا درجہ حرارت صفر سے 200 ڈگری نیچے تک چلا جاتا ہے۔ سیاچن میں تعینات فوجیوں کی حفاظت کے لئے فوج نے کئی نگرانی مرکز بھی بنا رکھے ہیں۔ بیس کیمپ میں موجود ایسے مرکز موسم میں ہونے والی ہر تبدیلی پر نظر رکھتے ہیں اور ایسی دراڑوں یا برفانی تودے گرنے کی پیشین گوئی بھی کرتے ہیں تو کیا سونم پوسٹ پر تعینات فوجیوں کے لئے ایسی کوئی پیشین گوئی نہیں کی گئی تھی۔

    سیاچن دنیا کی سب سے بلند جگہ ہے جہاں ہندستان اور پاکستان دونوں کی فوجیں تعینات رہتی ہیں۔ دراصل 13 اپریل 1984 کو ہندستان نے آپریشن میگھدوت چھیڑا تھا کیونکہ ایسی خبریں ملی تھیں کہ پاکستان نے سیاچن گلیشیر پر قبضے کی کوششیں شروع کر دی ہیں، اس وقت کے بعد سے ہی یہ آپریشن آج بھی جاری ہے۔ سیاچن میں اتنی اونچائی اور موسم سرما کے درمیان فوجیوں کو رکھنے، ان کی جان بچانے اور جنگ کے لئے تعینات رکھنے کے لئے ہر روز 5 کروڑ روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ 1984 سے اب تک ہندستان کے تقریباً 900 فوجی سیاچن میں موسم سے لڑتے ہوئے شہید ہو چکے ہیں۔ لیکن اب بھی سیاچن پر پوسٹنگ کو ہر فوجی فخر سے دیکھتا ہے، سیاچن پر جانا اس کے لئے فخر سے کم نہیں اور اسی فخر کو سلام کرنے خود وزیر اعظم نریندر مودی بھی گزشتہ سال سیاچن کے دورے پر گئے تھے۔

    ظاہر ہے کہ سیاچن میں صرف ہندستانی فوجی ہی نہیں بلکہ پاکستانی فوجی بھی قربانیاں دے رہے ہیں۔ اتنی سردی کے چلتے وہاں بھی ہر سال سینکڑوں فوجی مر رہے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال بھی اکثر اٹھتے رہے ہیں کہ آخر قدرت کے ایسے امتحان کے بیچ سرحد کی نگرانی کی کیا ضرورت ہے، آخر کیوں ہندستان اور پاکستان ایک دوسرے پر اعتماد کر اس سرحد کو قدرت کے حوالے نہیں کر سکتے ۔
    First published: