اننت ناگ: کہتے ہیں کہ کسان اپنے خون پسینے اور محنت کے بل پر زمین سے سونا بھی اگا سکتا ہے۔ ایسی ہی مثال جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے گیوگم کوکرناگ علاقے میں دیکھنے کو ملی، جہاں پر بشیر احمد گنائی نامی ایک غریب کسان کے بیٹے سبزار احمد نے یونین پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر نہ صرف اپنے والدین کا خواب پورا کیا بلکہ پورے علاقے کو مقامی اخباروں کی زینت بنادیا۔ دراصل سبزار کے والدین کسان ہیں اور کمزور اقتصادی حالت کی وجہ سے سبزار نے گاؤں کے ایک سرکاری اسکول سے ہی اپنا تعلیمی سفر شروع کیا۔ جس کے بعد جے کے سی ای ٹی کا امتحان پاس کر کے سبزار نے جموں کے گورنمنٹ کالج آف انجینئرنگ سے اپنی سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔
ڈگری حاصل کرنے کے بعد اور فلاح عام کی غرض سے سبزار کی آنکھوں میں آئی اے ایس کا خواب گھر کرنے لگا۔ لیکن گھر کی خستہ مالی حالت اور کشمیر کے نامساعد حالات میں انٹرنیٹ کی عدم فراہمی اس کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے لگی جس کی وجہ سے 2018 میں سبزار سول سروسز امتحانات میں کامیاب نہیں ہو سکا لیکن اس کے باوجود بھی سبزار نے ہمت نہیں ہاری اور اس نے 2019 کے امتحانات کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے ریزیڈینشل کوچنگ اکادمی کے دروازے پر دستک دی اور وہاں پر وہ اقلیتوں کےلئے فراہم کی جانے والی مفت کوچنگ کے لئے انٹرینس امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

سبزار کا کہنا ہے جامعہ ملیہ کی اس اکادمی میں اس کے خوابوں کو ایک اڑان ملی اور یہاں پر اسنے کوچنگ کر کے اس بار یو پی ایس،سی کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی۔ سبزار کو اس امتحان میں 628ویں رینک حاصل ہوئی ہے اور وہ اب ملک میں اس کو فراہم کی جانے والی کسی بھی نوکری میں جانے کےلئے تیار ہے لیکن ساتھ ہی اگلے سال وہ یونین پبلک سروس، امتحان میں اپنی ساخت کو مزید بہتر بنانے کیلئے پھر ایک بار امتحان میں بیٹھنے کے مطمنی ہیں سبزار کا کہنا ہے کہ وہ ایک پسماندہ گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں جسکی وجہ سے انکی راہ میں کافی مشکلات آۓ لیکن کامیابی کی لگن اور والدین کے تعاون سے وہ ہمیشہ آگے بڑھتے گئے۔

سبزار کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی تعلیم اپنے ہی گاؤں کے سرکاری اسکولوں سے حاصل کی ہے کیونکہ باپ کی کم آمدنی کی وجہ سے وہ کسی اچھے پرائیوٹ اسکول میں اپنا داخلہ ممکن نہیں بنا سکے۔ لیکن سرکاری اسکول میں بنیادی تعلیم کا ڈھانچہ مزید بہتر بنانے کےلئے اب بھی بہت کچھ کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔ سبزار کے مطابق سرکاری اسکولوں میں بہتر اساتذہ ہیں جنہیں سرکار بہترین تنخواہ دیتی ہے جبکہ سرکاری فنڈنگ سے ان اسکولوں کا بنیادی ڈھانچہ بھی مزید بہتر بنایا جا سکتا تھا لیکن اس کے باوجود بھی کشمیر میں سرکاری اسکولوں کا میعار بہتر نہیں ہو سکا۔ یہی وجہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کےلئے سرکاری اسکولوں کے بجائے نجی اسکولوں کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
سبزار کا کہنا ہے کہ اسکے ساتھ ساتھ گاؤں دیہات کی تصویر بدلنے کی بے حد ضرورت ہے۔ کیونکہ اب بھی ایسے کئ علاقے ہیں جہاں پر انٹرنیٹ یا پھر اخبار کی رسائی نا ممکن ہے۔ ایسے میں ایک ڈیجیٹل ڈیوژن نوجوانوں کی راہوں میں رکاوٹیں حائل کرتا ہے اور اس ڈیجیٹل ڈیوژن کو دور کرنے کی بے حد ضرورت ہے تب جا کے دیہی علاقوں کے باصلاحیت نوجوانوں گاؤں کا نقشہ بدلنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ سبزار نے کشمیری نوجوانوں کو اپنی منزل طے کرنے کےلئے محنت اور لگن سے کام کرنے کی تلقین کی ہے۔
سب سے پہلے پڑھیں نیوز18اردوپر اردو خبریں، اردو میں بریکینگ نیوز ۔ آج کی تازہ خبر، لائیو نیوز اپ ڈیٹ، پڑھیں سب سے بھروسہ مند اردو نیوز،نیوز18 اردو ڈاٹ کام پر ، جانیئے اپنی ریاست ملک وبیرون ملک اور بالخصوص مشرقی وسطیٰ ،انٹرٹینمنٹ، اسپورٹس، بزنس، ہیلتھ، تعلیم وروزگار سے متعلق تمام تفصیلات۔ نیوز18 اردو کو ٹویٹر ، فیس بک ، انسٹاگرام ،یو ٹیوب ، ڈیلی ہنٹ ، شیئر چاٹ اور کوایپ پر فالو کریں ۔