Dr Bhimrao Ambedkar B’day: بابا صاحب کی جدوجہد آج بھی دیتا ہے ہمیں بڑا سبق

 باباصاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر

باباصاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر

بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے اپنی زندگی میں ذات پات کا شکار ہوتے ہوئے اعلیٰ تعلیم حاصل کی لیکن اس کے بعد انہوں نے اپنی پوری زندگی پسماندہ اور محروم طبقات کی بہتری کے لیے وقف کر دی۔

  • News18 Urdu
  • Last Updated :
  • New Delhi, India
  • Share this:
    کسی انسان کی عظمت کا تعین اس بات سے طے نہیں ہوتا کہ وہ اپنے لیے کن بلندیوں تک پہنچ پایا، بلکہ عظیم لوگ دوسروں کے لیے کس طرح زندہ رہے اور انھوں نے ان کے لیے کیا اپنایا اور کیا قربانیاں دیں، یہ سب کچھ انھیں عظیم اور سبق آموز بنا دیتا ہے۔ ایسے ہی بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں ذات پات کا شکار ہوتے ہوئے اعلیٰ تعلیم حاصل کی لیکن اس کے بعد انہوں نے اپنی پوری زندگی پسماندہ اور محروم طبقات کی بہتری کے لیے وقف کر دی۔ انہیں ماننے والے یوں ہی بھگوان کا درجہ نہیں دیتے ہیں۔ 14 اپریل کو ان کی 132 واں یوم پیدائش ہے جسے پورا ملک منا رہا ہے۔ ان کی پوری زندگی اپنے آپ میں ایک تحریک ہے۔

    امتیازی سلوک بچپن سے ہی کیا سامنا
    بھیم راؤ رام جی امبیڈکر 6 اپریل 1891 کو مہو، مدھیہ پردیش میں پیدا ہوئے۔ وہ رام جی مالوجی سکپال اور بھیما بائی کے 14ویں اور آخری بچے تھے۔ ان کا خاندان مراٹھی نژاد تھا، جو مہاراشٹر کے رتناگیری ضلع کے امبادوے گاؤں میں رہتا تھا۔ اگرچہ وہ اپنے والد کی ملازمت کی وجہ سے ایک بہت غریب گھرانے سے تعلق نہیں رکھتے تھے، لیکن انہیں اچھوت سمجھی جانے والی ہندو مہار ذات سے ہونے کی وجہ سے بچپن سے ہی امتیازی سلوک اور سماجی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

    غلط ادراک، غلط فیصلہ... مسلمانوں کے 4 فیصد ریزرویشن ختم کرنے پر کرناٹک حکومت کو سپریم کورٹ کی پھٹکار

    دنیا کے 100 سب سے ’بااثر‘ شخصیات کی فہرست جاری، شاہ رخ خان-راجا مولی کو ملی جگہ

    مطالعہ میں گہری دلچسپی
    امبیڈکر پڑھائی میں بہت ذہین تھے۔1912 تک ایلفنسٹن کالج، بمبئی سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد، انہوں نے بمبئی یونیورسٹی سے معاشیات اور سیاسیات میں بیچلر آف آرٹس بھی کیا۔ 1913 اور 1916 کے درمیان انہوں نے نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

    معاشیات پروفیسر اور وکیل
    ڈاکٹر امبیڈکر اپنے ابتدائی کیریئر میں معاشیات پروفیسر اور وکیل تھے۔ اپنی تعلیم اور اپنے کیرئیر کے دوران انہیں خود بھی ذات پات کے امتیاز کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے اچھوت کی قدیم سوچ کی بھی سخت مخالفت کی۔ دلتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے انہوں نے پانچ میگزین نکالے جیسے سمتا، پربدھ بھارت موکنائک، بہشکرت بھارت اور جنتا۔ جس میں ان کے مضامین نے ہر طبقے کے لوگوں کو متاثر کیا۔

    سائمن کمیشن میں بھیجی تھی سفارش
    بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 1925 میں انہیں تمام یورپی اراکین پر مشتمل بمبئی پریذیڈنسی کمیٹی میں سائمن کمیشن پر کام کرنے کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ اس کمیشن کے خلاف ہندوستان بھر میں اس بنیاد پر احتجاج ہوا کہ اس میں کوئی ہندوستانی نہیں ہے۔ لیکن ڈاکٹر امبیڈکر نے اپنی طرف سے کئی آئینی اصلاحات کے لیے سفارشات بھیجی تھیں۔

    دلتوں کے لیے وقف
    امریکہ اور لندن سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی ڈاکٹر امبیڈکر نے سماج میں دلتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کو ختم کرنے کا کام کیا۔ عوامی تحریکوں، ستیہ گرہوں اور جلوسوں کے ذریعے انہوں نے سماج کے تمام طبقات کے لیے پینے کے پانی کے عوامی ذرائع کو کھولنے کی کوشش کی۔ چنانچہ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اچھوتوں کو ہندو مندروں میں داخلے کا حق دلانے کے لیے بھی سخت جدوجہد کی۔

    کانگریس سے لیکر گاندھی جی تک کی مخالفت
    1930 میں چار سال کی سیاسی اور سماجی سرگرمی کے بعد، امبیڈکر ایک بڑی شخصیت بن چکے تھے، ان کے خیالات دلتوں کے ساتھ ساتھ دیگر طبقات کو بھی متاثر کر رہے تھے۔ انہوں نے ذات پات کے خاتمے کے تئیں ان کی مبینہ بے حسی پر مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں پر سخت تنقید کی اور کانگریس سے لے کر مہاتما گاندھی تک کسی کو بھی نہیں بخشا اور الزام لگایا کہ گاندھی جی دلتوں کو ہمدردی کی اشیاء کے طور پر پیش کرتے رہے۔

    امبیڈکر ہر حال میں دلتوں کے لیے ایک موثر آواز بنے رہے، حالانکہ انھوں نے اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا، لیکن انھوں نے کبھی بھی سمجھوتہ کرنے یا اپنے مخالفین کے ساتھ آنے سے نہیں ہچکچایا۔ اس نے گاندھی جی کی ان کے اصولوں کی مخالفت کی اور دلتوں کی خاطر ان کے ساتھ سمجھوتہ بھی کیا۔ انہوں نے آئین ساز اسمبلی میں کانگریس کے خلاف بحث کی اور نہرو کی کابینہ میں وزارت قانون کی ذمہ داری بھی سنبھالی۔
    Published by:sibghatullah
    First published: