اپنا ضلع منتخب کریں۔

    آرایس ایس دفترمیں پرنب مکھرجی کی تقریرسے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے بی جے پی؟

    گزشتہ اتوار کی صبح ایک سینئر کانگریسی لیڈر جو سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کے قریبی سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے اس بات کی تصدیق کی، جسے پہلے تو افواہ مانا جارہا تھا۔ لیکن بعد میں اس کی تصدیق ہوئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پرنب دا کے ذریعہ بی جے پی کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟

    گزشتہ اتوار کی صبح ایک سینئر کانگریسی لیڈر جو سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کے قریبی سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے اس بات کی تصدیق کی، جسے پہلے تو افواہ مانا جارہا تھا۔ لیکن بعد میں اس کی تصدیق ہوئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پرنب دا کے ذریعہ بی جے پی کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟

    گزشتہ اتوار کی صبح ایک سینئر کانگریسی لیڈر جو سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کے قریبی سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے اس بات کی تصدیق کی، جسے پہلے تو افواہ مانا جارہا تھا۔ لیکن بعد میں اس کی تصدیق ہوئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پرنب دا کے ذریعہ بی جے پی کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟

    • Share this:
      نئی دہلی: گزشتہ اتوار کی صبح ایک سینئر کانگریسی لیڈر جو سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کے قریبی سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے اس بات کی تصدیق کی، جسے پہلے تو   افواہ مانا جارہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ پرنب مکھرجی نے 7 جون کو آرایس ایس کے ہیڈ کوارٹر میں کنوکیشن پروگرام کو خطاب کرنے کا دعوت نامہ قبول کیا ہے۔ ایک تجربہ کار لیڈر پرنب مکھرجی اپنے سیاسی دوستوں کے لئے کبھی مغرور نہیں رہے۔ اقتدار میں رہتے ہوئے بھی اپوزیشن یا دیگر لیڈروں کے ممبران سے انہوں نے ہمیشہ اچھے تعلقات بنائے رکھا۔

      تاہم اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کو آرایس ایس کے سالانہ کنوکیشن تقریب میں مدعو کرکے آخر بی جے پی اور کانگریس کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ ایسا تو نہیں یہ دکھانے کی کوشش ہورہی ہو کہ پرنب مکھرجی اب کانگریس کے نظریے سے نہیں بلکہ آرایس ایس کے نظریے سے اتفاق رکھتے ہیں یا پھر اس کا کوئی دوسرا پہلو ہے؟

      دراصل بی جے پی اور کانگریس ایک دوسرے کے سیاسی دشمن ہیں، اس کے باوجود کئی بی جے پی لیڈروں کے پرنب مکھرجی سے اچھے رشتے ہیں۔ وہ سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کے ساتھ مارننگ واک (صبح کی سیر) پر جاتے تھے۔ انہوں نے ایک بنگالی روزنامہ کو بتایا تھا کہ وہ جن ممبران پارلیمنٹ کو جانتے ہیں، ان میں اٹل بہاری واجپئی الگ نظرآتے ہیں۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ صدر جمہوریہ کی مدت کار میں انہوں نے دو بار آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کو لنچ کے لئے مدعو کیا تھا۔ اس کی وجہ سے کئی کانگریسی لیڈر ناراض ہوگئے تھے۔

      تاہم بی جے پی اعلیٰ قیادت کے ساتھ پرنب مکھرجی کے رشتے صرف اٹل بہاری واجپئی پر ختم نہیں ہوجاتے۔ ذرائع کہتے ہیں کہ وزیراعظم نریندر مودی کئی اہم معاملوں میں ہمیشہ ان کی رائے لیتے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم مودی کئی امور پر تبادلۂ خیال کے لئے اپنے کابینی وزرا کو پرنب مکھرجی کے پاس بھیجتے رہے ہیں، وہ بھی تب جب بطور صدر جمہوریہ ان کی مدت کار ختم ہوگئی تھی۔ مثال کے طور پر وزیر دفاع بنائے جانے کے لئے آئندہ روز نرملا سیتا رمن بھی پرنب مکھرجی سے ملنے گئی تھیں۔

      اب تک تو سب ٹھیک ہے، لیکن پرنب مکھرجی آرایس ایس دفتر کیسے جاسکتے ہیں؟ جبکہ پرنب مکھرجی ایک مذہبی شخص ہیں، وہ اپنے سیکولر شبیہ کے لئے جانے جاتے رہے ہیں۔ ان کے صدر جمہوریہ کی مدت کار میں وزیراعظم نریندر مودی نے ان سے اسرائیل جانے کی گزارش کی، پرنب نے  زور دیا کہ وہ فلسطین بھی جائیں گے۔

      یہ سیکولرازم اور مذہبی عقائد کے تئیں ان کی جوابدہی تھی، اس لئے آرایس ایس کے سالانہ تقریب میں شامل ہونے کا ان کافیصلہ زیادہ تر کانگریسیوں کو اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ پرنب مکھرجی خود کو 7 جون کے دن خود کو متعارف کرائیں گے۔

      کچھ سوالوں کا جواب تک نہیں ملے گا۔ کیونکہ شاید پرنب دا ناگپور میں وطن پرستی اور قوم پرستی کے موضو ع پر خطاب کریں گے۔ وہ ایک ہندو ملک کے قیام کی تجویز پر کوئی ضرورت نہیں ہے کہ موضوع پر بات کرسکتے ہیں۔ وہ سیکولر رہنما ہیں اس لئے سیکولرازم اور تمام مذاہب کے درمیان امن پر بھی خطا ب کرسکتے ہیں، لیکن کیا یہ پیغام ہندوستان کے دیگر حصوں میں پہنچے گا؟ کیا دیہی ہندوستان، گاوں اور بنگال کے چھوٹے شہروں کے لوگ کبھی یہ جان پائیں گے کہ انہوں نے ناگپور میں درحقیقت کیا بات کہی تھی؟ شاید وہ یہ یاد رکیں گے کہ پرنب مکھرجی آرایس ایس کے مرکزی دفتر  گئے تھے۔
      First published: