اپنا ضلع منتخب کریں۔

    گوگل نے ڈوڈل بنا کر شہنائی نواز استاد بسم اللہ خاں کو پیش کیا خراج عقیدت

    گوگل کےڈوڈل میں استاد بسم اللہ خان کو ایک سفید رنگ کی پوشاک زیب تن کئے شہنائی بجاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

    گوگل کےڈوڈل میں استاد بسم اللہ خان کو ایک سفید رنگ کی پوشاک زیب تن کئے شہنائی بجاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

    نئی دہلی۔ بھارت رتن سے سرفراز عالمی شہرت ہافتہ شہنائی نواز استاد بسم اللہ خان کے 102 ویں سالگرہ کے موقع پر آج گوگل نے ڈوڈل بنا کر انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔

    • UNI
    • Last Updated :
    • Share this:

      نئی دہلی۔ بھارت رتن سے سرفراز عالمی شہرت ہافتہ شہنائی نواز استاد بسم اللہ خان کے 102 ویں سالگرہ کے موقع پر آج گوگل نے ڈوڈل بنا کر انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ گوگل کےڈوڈل میں استاد بسم اللہ خان کو ایک سفید رنگ کی پوشاک زیب تن کئے شہنائی بجاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ جس کے پس منظر میں ایک جیومیٹری کے اسٹائل میں ایک پیٹرن ہے اور گوگل لکھا ہوا ہے۔ بسم اللہ خان کی پیدائش 21 مارچ 1916 میں ہوئی تھی۔ انہیں پدم وبھوشن، پدم بھوشن، پدم شری سمیت درجنوں ایوارڈز سے نوازا گیا۔ وہ تیسرے ہندوستانی موسیقار تھے، جنہیں بھارت رتن سے نوازا گیا ۔


      انہوں نے 14 سال کی عمر میں عوامی محفلوں میں شہنائی بجانا شروع کر دیا تھا۔ تاہم، 1937 میں کولکتہ میں انڈین میوزک کانفرنس میں ان کی پرفارمنس سے انہیں ملک بھر میں شناخت و شہرت ملی۔ انہوں نے ایڈنبرا میوزک فیسٹول میں بھی پرفارم کیا تھا جس سے دنیا بھر میں انہیں شہرت ملی۔ دل کا دورہ پڑنے سے 21 اگست 2006 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔


      بسم اللہ کا خاندان اور آباواجداد شاہی دربار کے شہنائی نواز تھے اور ان کے دادا نے بسم اللہ نام دیا۔ استاد انہیں ان کے فن کی وجہ سے عوام الناس نے دیا۔ استاد بسم اللہ خان کو حکومت نے ہند نے سب سے بڑے بھارت رتن اعزاز سے نوازا جبکہ انہیں مختلف دور میں پدم وبھوشن ،پدم بھوشن اور پدم شری اعزاز بھی دیا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں بے شمار اعزازت سے نوازا جاچکا ہے ۔ملک ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی طورپر اعزازات بھی حاصل ہوئے ۔انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ 15اگست 1947کو آزادی کے جشن میں شہنائی بجانے کا موقعہ دیا گیا تھا اور اب بھی ہرسال یوم جمہوریہ کے موقع پر استاد بسم اللہ کی شہنائی سنائی دیتی ہے۔


      واضح رہے کہ بسم اللہ خان 21 مارچ 1916ء کو دومراون میں کے ایک شیعہ مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اْن کے والد پیغمبر بخش خان اور والدہ مِٹھاں تھیں۔ بسم اللہ خان کا اصل نام امیر الدین خان تھا جبکہ اْن کے دادا نے اْن کا نام بسم اللہ تجویز کیا تھا۔بسم اللہ خان کے والد پیغمبر بخش خان جودھ پور کے دربار میں شاہی گوئیے تھے۔ بسم اللہ خان کے پردادا استاد سالار حسین خان اور دادا رسول بخش خان دومراون کے شاہی دربار میں گوئیے تھے۔ بسم اللہ خان کے آباؤ اجداد بھوج پور ضلع، بہار کے شاہی دربار میں نقار خانہ میں ملازم بھی تھے۔ بسم اللہ خان کے والد دومراون کے مہاراجہ کیشو پرساد سنگھ کے دربار میں شہنائی نواز تھے۔ 1922ء میں 6 سال کی عمر میں بسم اللہ خان کے والدین وارانسی چلے گئے۔ وارانسی میں وہ اپنے چچا علی بخش ولائیت سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ علی بخش ولائیت کو ولائیتو بھی کہا جاتا تھا اور وہ وارانسی کے کاشی وشوناتھ مندر میں شہنائی نواز بھی تھے۔


      بتایا جاتا ہے کہ بسم اللہ خان ہندوستان میں شہنائی کی تعلیم اور اِس کے فروغ کے لیے فردِ واحد کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ اْنہوں نے شہنائی کو تھیٹر میں پس پردہ سے اٹھا کر منظر عام پر روشناس کروایا۔ 1937ء میں کلکتہ میں کل ہند مجلس موسیقی میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی میں بسم اللہ خان شہنائی میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ شہنائی کو ہندوستان سے باہر یورپ تک پہنچانے میں اْن کا بڑا نمایاں کردار رہا۔

      بسم اللہ خان کی بیوی کے انتقال کے بعد وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ’’ شہنائی ہی میری بیوی ہے۔‘‘حال میں ان کے صاحبزادے کا بھی انتقال ہوگیا۔ آج گوگل کے ڈوڈل پر استاد بسم اللہ خان کو خراج عقیدت پیش کیا اور تصویر میں انہیں شہنائی بجاتے ہوئے دکھا یا گیا ہے جسے چنئی کے وجے کرش نے تیار کیا ہے۔

      First published: