اپنا ضلع منتخب کریں۔

    ہاشم پورہ قتل عام منصوبہ بند تھا ، ملزمین کو سینئر پولیس افسران اور کچھ سیاستدانوں کی حمایت حاصل تھی : وبھوتی نارائن رائے

    اس بات کا دعوی غازی آباد کے سابق پولیس انسپکٹر وبھوتی نارائن رائے نے اپنی کتاب ہاشم پورہ 22 مئی میں دعوی کیا ہے۔

    اس بات کا دعوی غازی آباد کے سابق پولیس انسپکٹر وبھوتی نارائن رائے نے اپنی کتاب ہاشم پورہ 22 مئی میں دعوی کیا ہے۔

    اس بات کا دعوی غازی آباد کے سابق پولیس انسپکٹر وبھوتی نارائن رائے نے اپنی کتاب ہاشم پورہ 22 مئی میں دعوی کیا ہے۔

    • IANS
    • Last Updated :
    • Share this:
      غازی آباد : 22 مئی 1987 میں ہاشم پورہ میں 42 مسلم نوجوانوں کا قتل عام منصوبہ بند تھا اور اس میں شامل پولیس افسران کو سینئر افسران اور کچھ سیاستدانوں کی حمایت حاصل تھی۔ اس بات کا دعوی غازی آباد کے سابق پولیس انسپکٹر وبھوتی نارائن رائے نے اپنی کتاب ہاشم پورہ 22 مئی میں دعوی کیا ہے۔ خیال رہے کہ نارائن نے ہی سب سے پہلے کہا تھا کہ قتل عام پی اے سی کی ایک ٹیم نے کیا تھا ۔
      اپنی کتاب میں مسٹر رائے نے کہا ہے کہ 21 اور 22 مئی کو میرٹھ کے سینئر پولیس اور سول افسران کے درمیان مشتبہ میٹنگ ہوئی تھی ، جس میں کچھ آرمی کے افسران بھی شامل ہوئے تھے ۔ انہوں نے مزید لکھا کہ اس بات پر یقین کرنے کی میرے پاس کئی وجہیں موجود ہیں کہ یہ میٹنگ ان اہم میٹنگوں میں سے ایک تھی ، جس میں دو گروپ کو حتمی شکل دیا گیا ۔ ایک گروپ کا کام لوگوں کی شناخت کرنا اور دوسرے گروپ کا کام واقعہ کو انجام دینا تھا ۔
      مسٹر رائےجنہوں نے اس وقت کے ریاست کے وزیر اعلی ویر بہادر سنگھ کو اس قتل عام کی سب سے پہلے خبر دی تھی ، نے پھر دوہرایا کہ فوج ، سی آر پی ایف ، پی اے سی اور پولیس افسران نے ہاشم پورہ میں 600 سے 700 افراد کو ان کے گھروں سے باہر نکالا ۔ ان میں سے 40 سے 45 نوجوانوں کا انتخابات کیا اور ان کو پی اے سی کے ایک ٹرک یو آر یو 1493 میں بھر کر ان نو جوانوں کو دہلی غازی آباد سرحد سے متصل مکان پور کے نزدیک ایک نہر کے پاس لایا گیا اور پھر وہاں ان کو ایک ایک کر گولی ماردی گئی اور ان کی لاشوں کو نہر میں پھینک دیا گیا۔
      وبھوتی نارائن رائے نے ہاشم پورہ قتل عام کو آزادی کے بعد ملک میں سب سے بڑا حراستی قتل عام قرار دیا اور ساتھ ہی ساتھ سی آئی ڈی کی جانچ پر بھی سوالات اٹھائے ۔مسٹر رائے کے مطابق مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں ہے کہ جس دن سے جانچ کا آغاز ہوا ہے اس دن سے ہی سی آئی ڈی قصورواروں کو بچانے میں مصروف ہوگئی تھی۔ جانچ کا مشن ملزموں کے خلاف عائد الزامات کو ثابت کرنا نہیں تھا بلکہ جانچ میں سست روی اختیار کرنا تھا اور ایسے حالات پیدا کرنے تھے ، جس میں کوئی بھی عدالت ملزموں کو قصوروار نہ گردان سکے۔
      First published: