اپنا ضلع منتخب کریں۔

    جماعت اسلامی کے بجٹ ڈسکشن میں وزارت اقلیتی امور کا Budget دس ہزار کروڑ کیے جانے  کی صلاح

    حکومت کی جانب سے متعدد تعلیمی پالیسیاں بنائی گئی ہیں مگر اس کی صحیح طور پر مانیٹرنگ نہیں کی گئی ۔ حکومت نے پچھلے مالی سال کے بجٹ میں ایجوکیشن بجٹ  کیلئے جو فنڈ پہلے سے مختص تھا اس میں بھی کمی کردی۔ پہلے یہ بجٹ پانچ ہزار کروڑ روپے تھا جسے کم کرکے چار ہزار آٹھ سو کردیا گیا جبکہ موجودہ وقت میں مائنارٹی ایجوکیشن کے لیے دس ہزار کروڑ کی ضرورت ہے۔

    حکومت کی جانب سے متعدد تعلیمی پالیسیاں بنائی گئی ہیں مگر اس کی صحیح طور پر مانیٹرنگ نہیں کی گئی ۔ حکومت نے پچھلے مالی سال کے بجٹ میں ایجوکیشن بجٹ  کیلئے جو فنڈ پہلے سے مختص تھا اس میں بھی کمی کردی۔ پہلے یہ بجٹ پانچ ہزار کروڑ روپے تھا جسے کم کرکے چار ہزار آٹھ سو کردیا گیا جبکہ موجودہ وقت میں مائنارٹی ایجوکیشن کے لیے دس ہزار کروڑ کی ضرورت ہے۔

    حکومت کی جانب سے متعدد تعلیمی پالیسیاں بنائی گئی ہیں مگر اس کی صحیح طور پر مانیٹرنگ نہیں کی گئی ۔ حکومت نے پچھلے مالی سال کے بجٹ میں ایجوکیشن بجٹ  کیلئے جو فنڈ پہلے سے مختص تھا اس میں بھی کمی کردی۔ پہلے یہ بجٹ پانچ ہزار کروڑ روپے تھا جسے کم کرکے چار ہزار آٹھ سو کردیا گیا جبکہ موجودہ وقت میں مائنارٹی ایجوکیشن کے لیے دس ہزار کروڑ کی ضرورت ہے۔

    • Share this:
    نئی دہلی: فروری کے آغاز میں مرکزی حکومت کا بجٹ پیش کیا جائے گا لیکن اس سے قبل بجٹ Budget  کو لے کر تبادلہ خیال شروع ہو چکا ہے اس دوران بجٹ ماہرین مان رہے ہیں ملک میں اقلیتوں کے لئے لیے بنائی گئی وزارت کا بجٹ کافی نہیں ہے اس میں میں ایک تہائی کے قریب اضافے کی ضرورت ہے۔ بجٹ ماہرین کا ماننا ہے وزارت کا بجٹ 8 ہزار کروڑ سے لے کر دس ہزار کروڑ تک ہونا چاہیے جس سے وہ ایک کروڑ سالانہ اسکالرشپ دینے کا ہدف حاصل کرسکے۔ تفصیلات کے مطابق مالی سال 2022-23 کے لئے مرکزی حکومت کی جانب سے پیش کئے جانے والے بجٹ میں اقلیتوں اور ان کی تعلیمی ضرورتوں پر حکومت کی توجہ مرکوز کرانے کی غرض سے مرکزی تعلیمی بورڈ،جماعت اسلامی ہند (Jamaat e Islami Hind) کی جانب سے ایک آن لائن پریس کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ماہرین اقتصادیات کے علاوہ مختلف ریاستوں سے صحافیوں، دانشوروں اور تعلیمی ماہرین نے حصہ لیا۔ اس موقع پر معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر جاوید عالم نے کہا کہ ”کسی بھی جمہوری ملک میں اقلیت یا مذہبی اقلیت کا بڑا اہم رول ہوتا ہے، لہٰذا ترقیاتی منصوبوں بالخصوص تعلیمی بجٹ بناتے وقت ان کی ترقی اور پائیداری کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ آنے والے مالی سال کے لئے جلد ہی نیا بجٹ پیش کیا جانے والا ہے۔

    ایسے موقع پر اقلیتوں کی تعلیمی پسماندگی کو دیکھتے ہوئے ان کے لئے بجٹ میں خاطر خواہ اضافے کی طرف حکومت کی توجہ دلانا موجودہ وقت کا اہم تقاضہ ہے۔کیونکہ اسکول کی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک بھاری رقم کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے خاص طور پر پسماندہ طبقہ کو مالی امداد کی ضرورت پڑتی ہے۔حکومت کی جانب سے متعدد تعلیمی اسکیمیں اور پالیسیاں بنائی گئی ہیں مگر ان پر کتنا عمل ہوا؟ اس کی صحیح طور پر مانیٹرنگ نہیں کی گئی اور نہ ہی یہ خلاصہ ہوا کہ ان اسکیموں سے مائنارٹی کے کتنے طلباء نے استفادہ کیا۔ حکومت نے پچھلے مالی سال کے بجٹ میں ایجوکیشن بجٹ خاص طور پر اقلیتی تعلیمی بجٹ پر زیادہ توجہ نہیں دی۔جو فنڈ پہلے سے مختص تھا اس میں بھی کمی کردی گئی۔ پہلے یہ بجٹ پانچ ہزار کروڑ روپے تھا جسے کم کرکے چار ہزار آٹھ سو کردیا گیا جبکہ موجودہ وقت میں مائنارٹی ایجوکیشن کے لئے کم سے کم دس ہزار کروڑ روپے کی ضرورت ہے۔



    کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے مرکزی تعلیمی بورڈ کے ڈائریکٹر سید تنویر احمد نے کہا کہ مرکزی حکومت کی جانب سے نئے مالی سال پر جو بجٹ پیش کیا جانے والا ہے،اس میں مائنارٹیز کی حصہ داری کتنی ہونی چاہئے اور ان کی تعلیمی ترقیات کے لئے کتنے فنڈ کی ضرورت ہے؟ اس اہم پہلو سے حکومت کو آگاہ کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے اور اس کے لئے تمام تنظیموں، دانشوروں اور ہمدردان قوم وملت کو آگے آنا چاہئے۔ جماعت اسلامی ہند نے جو کانفرنس منعقد کیا ہے، اس کا مقصد بھی یہی ہے تاکہ حکومت ان کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے خصوصی پالیسیاں اور موثر اسکیمیں بنائے جن سے طلباء زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیں“سید تنویر نے کہا کہ تعلیمی بورڈ کی ایک رضاکار ٹیم آئندہ بجٹ میں اقلیتوں کو تعلیمی ضرورتوں اور انہیں سہولت پہنچانے کے امکانات کا مطالعہ کررہی ہے جو بھی تجاویز سامنے آئیں گی انہیں حکومت کو پیش کردی جائیں گی۔

    نیز جماعت نے حکومت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ”سال 2020 میں تعلیم کے لئے مجموعی قومی پیداوار کا جو 6 فیصد مختص کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا اسے نافذ کیاجائے۔اس مسئلہ میں اخراجات کی کوالٹی کو بہتر کیا جائے،بجٹ کا جو پروسیس ہے اسے ڈی سینٹرلائز کیا جائے۔’سمگرا شکچھا ابھیان‘ کی فنڈنگ کو بڑھایا جائے۔ یو جی سی کی فنڈنگ میں اضافہ کیا جائے۔تمام پسماندہ طبقات کے وظائف اور فیلو شپ کی تعداد بڑھائی جائے۔ تعلیمی اخرجات میں مرکزی حکومت کی حصہ داری میں اضافہ کیا جائے۔ کانفرنس کے اختتام پر سوال و جواب کا سیشن رکھا گیا جس میں تعلیم سے متعلق بہت سے نکات سامنے آئے۔
    Published by:Sana Naeem
    First published: