لکھنئو۔ آئندہ ۲۳ جون کو ہونے والے لوک سبھا کے ضمنی انتخابات کے لئے اعظم خاں کے ذریعے رامپور کی نمائندگی کے لئے عاصم راجہ کے نام کے اعلان نے جہاں گزشتہ کچھ دنوں سے چل رہی بحث اور قیاس آرائیوں کوختم کردیا ہے۔ وہیں کچھ نئے سوالات بھی کھڑے کردئے ہیں اب سیاسی گلیاروں میں یہ سوال گشت کررہے ہیں کہ کیا اعظم خاں اور اکھلیش کے مابین بڑھی خلش اس اعلان کے ساتھ مٹ گئی یا کم ہوگئی۔ کیا شیو پال یادو کی خاموشی ان کی ایک اور شکست کا اعلان ہے ؟ کیا اب شیو پال اور اعظم کی قربت کے پس منظر میں جس نئے محاذ کی تشکیل کی قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں ان پر روک لگ جائے گی؟ آخر اعظم خاں نے اس ضمنی انتخاب کے لئے اپنی اہلیہ ، بہو۔ یا اپنے گھر کے کسی فرد کا نام کیوں پیش نہیں کیا ؟ ایسے بہت سے سوالات ہیں جو سماج وادی پارٹی کی سیاست اور بالخصوص اعظم اور اکھلیش کے رشتوں کے اطراف کھڑے ہیں ۔ سیاست کب کیا رنگ دکھائے کون سا چولا پہن لے یہ کہنا واقعی دشوار ہوتا ہے۔
اعظم گڑھ کے ٹکٹ کو لے کر یہ کہا جارہا تھا کہ سماج وادی پارٹی samajwadi party کے سابق ایم پی بلیہاری بابو کے بیٹے سشیل کمار عرف پپو اعظم گڑھ سے سماج وادی پارٹی کے نمائندے کی حیثیت سے میدان میں اتریں گے لیکن پھر اچانک دھرمیندر یادو کے نامنیشن کے بعد ایک نئی بحث چھڑُگئی ۔حالانکہ سشیل کمارعرف پپو نے اس معاملے میں مثبت رخ اختیار کرتے ہوئے یہی کیا کہ انہوں نے خود اپنا نام واپس لیا ہے کیونکہ ان کا اندراج گاوں اور شہر دونوں کی ووٹر لسٹ میں درج تھا جو کسی وقت بھی تنازع کا سبب ہوسکتا ہے لہٰذا انہوں نے سماج وادی پارٹی سربراہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنا نام واپس لیا جبکہ انہیں پارٹی کی جانب سے نامنیشن کرانے کے لئے ضروری فارم دستیاب کرادئے گئے تھے۔ اعظم خاں کے ذریعے رام پور سے عاصم راجہ کو میدان میں اتارے جانے کا سیاسی پا منظر کیا ہے یہ بھی ایک اہم سوال ہے، آخر انہوں نے اپنے گھر کے کسی فرد کا انتخاب کیوں نہیں کیا ۔ اس کو لے کر بھی نئی بحث اور قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں لیکن عاصم راجہ کے مثبت بیانات اور ابھی تک کے عوامل نے نے یہی ثابت کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ وہ بھی اعظم خان کے گھر کے ایک فرد کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اعظم خاں کی اس پیش رفت اور حکمت عملی کے بعد رام پور کے لوگ اپنے پسندیدہ لیڈر کے فیصلے اور امیدوار کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ حالانکہ ابھی تک کا کا منظر نامہ تو یہ ہی بتاتا ہے کہ اعظم خاں کی سیاسی مقبولیت اور محنت کاصلہ عاصم راجہ کو ملے گا لیکن مقابلہ اتنا بھی آسان نہیں کیونکہ بی جے پی نے بھی تمام اٹکلوں اور اندیشوں کو دور کرتے ہوئے رام پور سے گھنشیام سنگھ کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ تاہم چند روز پہلے تک قیاس یہی لگایا جا رہاتھا کہ رام پور سے مختار عباس نقوی کو میدان میں اتارا جاسکتا ہے جہاں تک گھنشیام سنگھ کے سیاسی کیرئراور سفر کا سوال ہے، تو وہ 1992 سے 1998 تک بی جے پی یوتھ وِنگ کے ضلعی صدر رہے ہیں 1999 میں انھوں نے بی جے پی چھوڑ کر بہوجن سماج پارٹی کی رکنیت اختیار کر لی تھی۔
2004 میں بہوجن سماج پارٹی چھوڑ کر وہ راشٹریہ کرانتی پارٹی میں شامل ہوئے، اور پھر 2009 میں دوبارہ بہوجن سماج پارٹی کی رکنیت اختیار کر لی۔ 2010 میں گھنشیام سنگھ نے سماجوادی پارٹی جوائن کی اور جنوری 2022 میں وہ پھر اپنی پرانی پارٹی یعنی بی جے پی سے جڑ گئے جس کے ساتھ انہوں نے اپنا سیاسی سفر شروع کیا تھا۔۔اب دیکھنا یہ ہے کہ شیو پال سنگھ یادو کی جانب سے اس بدلتے سیاسی ماحول میں کیا کچھ کہا جاتا ہے کیا قدم اٹھایا جاتا ہے کیا واقعی ان کی اکھلیش سے دوریاں برقرار رہتی ہیں ، اعظم خاں سے قربت کے دعوے برقرار رہتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان حوالوں سے اعظم خاں کی معنی خیز خاموشی ، انکی سیاسی حکمت عملی پر بہت کچھ منحصر ہے ۔۔ طارق قمر
سب سے پہلے پڑھیں نیوز18اردوپر اردو خبریں، اردو میں بریکینگ نیوز ۔ آج کی تازہ خبر، لائیو نیوز اپ ڈیٹ، پڑھیں سب سے بھروسہ مند اردو نیوز،نیوز18 اردو ڈاٹ کام پر ، جانیئے اپنی ریاست ملک وبیرون ملک اور بالخصوص مشرقی وسطیٰ ،انٹرٹینمنٹ، اسپورٹس، بزنس، ہیلتھ، تعلیم وروزگار سے متعلق تمام تفصیلات۔ نیوز18 اردو کو ٹویٹر ، فیس بک ، انسٹاگرام ،یو ٹیوب ، ڈیلی ہنٹ ، شیئر چاٹ اور کوایپ پر فالو کریں ۔