دبستان رام پور کی شاعری کا روشن و معتبر متن اظہر عنایتی 

موجودہ عہد میں جناب اظہر عنایتی دبستان رام پور کی شاعری کا ایسا روشن اور معتبر متن ہیں جس کی حاشیہ آرائی کرنے کے لئے بیشتر تنقیدی نظریے بے بس و مجبور نظر آتے ہیں۔

موجودہ عہد میں جناب اظہر عنایتی دبستان رام پور کی شاعری کا ایسا روشن اور معتبر متن ہیں جس کی حاشیہ آرائی کرنے کے لئے بیشتر تنقیدی نظریے بے بس و مجبور نظر آتے ہیں۔

موجودہ عہد میں جناب اظہر عنایتی دبستان رام پور کی شاعری کا ایسا روشن اور معتبر متن ہیں جس کی حاشیہ آرائی کرنے کے لئے بیشتر تنقیدی نظریے بے بس و مجبور نظر آتے ہیں۔

  • News18 Urdu
  • Last Updated :
  • Lucknow, India
  • Share this:
ہم ایک ایسے عہد میں سانس لے رہے ہیں جس میں کتابِ عدل و انصاف کامسودہ خون آلود  ہے اور اس مسودے کا ہر ورق خونِ مظلوم سے رنگیں ہے،اس رنگینی کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ لفظ کی زبان تراشی جارہی ہے اسے اپنے معنی سے محروم کیا جارہا ہے لفظ خاموش ہے، اس عہد میں قلم کاروں اور شاعروں کو زندگی کا متن لکھنے کی اجازت نہیں حاشیہ تحریر کرنے کا حکم ہے وہ بھی اس احتیاط کے ساتھ کہ اقتدار و اربابِ اقتدار پر کوئی حرف نہ آجائے۔میں سوچ رہا ہوں کیا محض زباں تراش دینے کا عمل کسی احتجاج و انقلاب کی لے کو خاموش کردینے کے لئے کافی ہے؟لفظ کی مسلسل خاموشی نے لوگوں کی قوتِ سماعت چھین لی ہے یا ذوقِ سماعت تبدیل کرکے لفظ اور معانی کے مابین لامتناہی فاصلے پیدا کردئے ہیں ؟ یہ لفظ جو میرے دہن و قلم  سے باہر آرہے ہیں یہ کہیں محفوظ بھی ہورہے ہیں یا نہیں ۔اگر یہ شور لفظوں کا شور ہے تو ردِّ عمل کیوں نہیں۔سماعتیں بہری ہوگئی ہیں یا لفظ گونگے ہو کے ہیں۔۔۔
احتجاجوں کی صدا کیا کوئی سنتا ہی نہیں،بڑھتے جاتے ہیں یہ کیوں شور مچاتے ہوئے لوگ۔۔یہ احساس شدت سے سر اٹھا رہا تھا کہ بد گمانی  و بے یقینی  کی فضا اور بے اعتنائی و بے اعتباری کے ماحول میں لفظ خاموش ہے گویا  لایعنویت اور بے معنویت کا شکار ہو کر کہیں شور وہنگام  کی نذر ہو چکاہے ۔محترم اظہر عنایتی کو پڑھا  تو معلوم ہوا لفظ  کبھی خاموش ہوتا ہی نہیں  لفظ کل بھی بول رہا تھا اور آج بھی بول رہاہے ، بول ہی نہیں رہاہے بلکہ پوری تاب و توانائی کے ساتھ، خوش سلیقگی  اور شائستگی سے گفتگو بھی کر رہاہے۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ معتبر لفظ شور و ہنگام کو صدا سمجھنے والی سماعتوں اور ذہنیتوں سے گریزاں ہے، اک ابھرتی ہوئی آواز دبانے کے لئےاس سے پہلے بھی بہت شور مچایا گیا تھا ۔۔۔۔ جناب اظہر عنایتی کو معلوم ہے لفظ ایک جہانِ معانی ہے، معانی کا جہان ہے کن سے فیکون تک ساری داستان لفظ کی داستان ہے لفظ جب بلالِ حبشی کی اذان میں ڈھلتا ہے تو سحر کا نور بن جاتا ہے اور جب کسی ماہر لسان کی زبان  سے نکلتا ہے تو شعری شعور بن جاتا ہے۔ Raise your words not your voice It is rain that grows flowers,not thunder مولانا رومی نے کہا تھا اپنی آواز کے بجائے اپنے الفاظ بلند کیجئے پھول بادل کے گرجنے سے نہیں برسنے سے اُگتے ہیں ۔

مکہ مکرمہ گئی پاکستانی ٹک ٹاک اسٹار کنول آفتاب کی یہ تصاویر دیکھ کر بھڑکے لوگ، جانئے وجہ

رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ گناہوں سے توبہ اور بخشش کا مہینہ ہے، پڑھیں یہ دعا

اظہر عنایتی اردو شاعری کی دنیا میں ایک ایسے روشن اور معتبر لفظ کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی تعبیر و تفہیم ہر کس و ناکس کی دسترس میں نہیں۔بے لگام تنقید کی اپنی روش اپنی ہٹ دھرمی ہوتی ہے لیکن کہا تو یہی  جاتا ہے کہ اچھی سچّی اور بڑی  شاعری کی اہم خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ماضی کی بازیافت کو یقینی بناتی ہے حال پر سنجیدہ نظر رکھتی ہے اور مستقبل کی بشارت ہوا کرتی ہے اس حوالے سے اگر اظہر عنایتی کی شاعری کا سنجیدہ تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں ماضی صرف بین و ماتم کا وسیلہ یا جشنِ گزشتہ کا کوئی ٹھہرا ہوا لمحہ نہیں بلکہ جذبات و احساسات کی تہذیب و ترویج کا بنیادی ماخذ ہے ، ان کو پڑھتے وقت محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ میں ایک سوختہ شہر ہیں  ماضی کے آتش خانوں  کی راکھ کریدنے کا جو ہنر جو سلیقہ جناب اظہر عنایتی صاحب کے پاس ہے وہ کم ہی شاعروں کا مقدر  بنتا ہے  اس عمل کے دوران نہ انکی انگلیاں جلتی ہیں  نہ  چنگاریاں ہوا کے دوش پر سوار ہوکر رقص کرتی ہیں بس ایک روشنی ہے جو شعلے کی طرح لپکتی ہے اور کھوئے ہوئے نقوش کو اجاگر و تابندہ کر دیتی ہے ، ہمارے شعری ادب میں ماضی کے نقوش اور تہذیبی آثار   کے حوالے سے جو شاعری کی گئی ہے اس شاعری کا ایک بڑا حصہ ریفلیکٹو  ناسٹیلجیا پر مشتمل ہے ، روشن ماضی کا ذکر ، اس ذکر سے حال کا تقابل اور تقابل کے بعد ماضی کی فتح کے احساس  کی ترقیم ہی شاعروں کا بڑا کارنامہ تصور کی جاتی رہی  ہے لیکن اظہر عنایتی کے یہاں   ریفلیکٹف ناسٹیلجیا پر مبنیمبنی منظر نامہ جس شدت  سے ابھر کر سامنے آتا ہے وہ انہیں اپنے ہم عصروں سے مختلف اورمنفرد کرتا ہے ،ان کی  شاعری ماضی کی بازیافت  کو یقینی ہی نہیں  بناتی ہے ، کھوئے ہوئے ماضی سے دوبارہ گزرتی بھی ہے  اور پھر ماضی سے روشنی کشید کرکے حال کو روشن و تابندہ بھی کر دیتی ہے۔۔
رہتے تھے داستانوں کے ماحول میں مگر،کیا لوگ تھے کہ جھوٹ کبھی بولتے نہ تھے
یہ کیسے ختم ہو گئیں زباں کی پاسداریاں،وہ دشمنوں پہ اعتبار کرنے والے کیا ہوئے
جھوٹی سیاہیوں سے ہیں شجرے لکھے ہوئے،اب کے حسب نسب کی بھی سچائیاں گئیں،
وراثت میں اک نیم جاں سی زباں،میں خود اپنے فن کا عزادار سا
غلام  اب نہ حویلی سے آئیں گے لیکن، حضور آج بھی تالی بجا کے دیکھتے ہیں
کل اسے کون پڑھے گا اظہرنام اردو میں لکھا ہے میرا
میرا گھر ہے پرانے وقتوں کااس کی آنکھیں نئے زمانے کی
ارے میرے بچو ! یہ کیا کردیاکھلونوں میں مٹی کے تھے گھر کئی

اظہر عنایتی نے ماضی سے حال تک کا  سفر طے کرنے میں  لمحہءِ گریز کو مرنے نہیں دیا ہے بلکہ اس لمحے کو بھی بدلتی ہوئی تہذیبوں کے تصادم سے اس طرح مربوط و منسلک کردیاہے کہ ماضی و حال کے تمام منظر نامے اپنی پوری اہمیت و افادیت کے ساتھ ادب کا حصہ بن گئے   ہیں محسوس ہوتا ہے کہ ماضی و حال کے مابین کوئی ایک خطِّ امتیاز ہے جس پر کھڑے ہوکر پورے توازن و اعتبار کے ساتھ شاعری کا حق ادا کیا جارہاہے امریکی شاعر Kris Kristofferson نے کہاتھا، I would trade all my tomorrows for one single yesterday  لیکن اظہر عنایتی  کی شعری اپروچ اپنے انفراد کے ذریعے اس خیال و احساس کی تردید کرتی ہے اور  یہ احساس بھی کراتی ہے کہ ہم جس عہد میں سانس لےرہے ہیں وہ ہمارے مستقبل کا ماضی ہے لہٰذا اگر شاعر کے پاس ماضی کو حال اور حال کو ماضی بنانے کی لسانی قدرت ہو تو شاعری زمانے کے ساتھ نہیں بلکہ زمانے شاعری کے ساتھ سفر کرتے ہیں،
بلندیوں کو غلط زاویے سے مت دیکھو،تمہارے سر پہ بھی دستار ہے خیال رہے
ہنس رہے ہیں یوں خود پر زندگی کی وادی میں کیا صدا لگائی تھی کیا جواب آئے ہیں
اس بلندی پہ کہاں تھے پہلےاب جو بادل ہیں دھواں تھے پہلے
تو شہر بھر کے جلتے چراغوں کا قتل کرمیں سر پھری ہوا تجھے بادِ صبا کہوں
ہم تو پیروں میں سمجھتے تھے مگر آپ کے ذہن میں کانٹے نکلے
ذہانتوں کو کہاں وقت خوں بہانے کاہمارے عہد میں کردار قتل ہوتے ہیں
یہ  پیکر یہ کتنی شدت اور کیسی جدت کے ساتھ نہ صرف اپنے عہد کی صورت گری کررہے ہیں بلکہ اپنے مخصوص لسانی رویوں اور لفظیاتی و  استعاراتی  نظام کے ذریعے یہ احساس بھی کرارہے ہیں کہ لفظ زندہ بھی ہے اور پوری معنویت کے ساتھ کلام  بھی کر  رہا ہے ۔مسئلہ صرف یہ ہے کہ سارے خطرے تو ہیں تخلیقِ غزل میں اظہر،کوئی خطرہ ہی نہیں یار غزل خوانی میں
لفظ بے معنی  نہیں ہوا ہے بلکہ لفظ برتنے والوں نے اس کے معنوی کینوس کو اپنے ذہن اور فکر کی سطح پر لاکر محدود و مبہم کر دیا ہے ۔ ہم بھلے ہی سلو لائڈ کی تہذیب میں سانس لے رہے ہوں لیکن مٹی ہمارے وجود کا اٹوٹ حصہ ہے ہم لاکھ کنارہ کش ہو جائیں لیکن  مٹی کا یہ بندھن شکست و ریخت سے ماورا ہے جناب اظہر عنایتی کو احساس ہے کہ سلولائڈ اور کنکریٹ کی قیمت خواہ کچھ بھی ہوجائے لیکن مٹی کبھی بے بضاعت نہیں ہو سکتی۔
پکّے گھروں نے نیند بھی آنکھوں کی چھین لی،کچّے گھروں میں رات کو ہم جاگتے نہ تھے
لرز رہا ہوں کہ تہذیب کا یہ سرمایہنئے اجالوں کے سیلاب میں نہ بہہ جائے
معلوم ہوا کہ اظہر عنایتی کی شاعری صرف ماضی کی بازیافت ہی نہیں بلکہ اپنے عہد کا مکمل اور مستحکم شناخت نامہ بھی ہے اور ہمارےمستقبل کے روشن و زندہ خوابوں کی بشارت بھی اس آفاقی  شاعری کے آئینے میں سماج کی بنتی بگڑتی سبھی تصویریں نمایاں اور صاف  نظر آتی ہیںزندگی کے سلسلے بکھر چکے ہیں ہر  طرف  مادیت پسندی ، جھوٹ فریب مکاری عیاری اور انسانی نا قدری کے ویران خطے ہی نظر آتے ہیں ، تیرگی ہے نا امیدی ہے افسردگی بے چارگی مایوسی اور بے یقینی ہے ہمارے عہد ہمارے معاشرے کے سیاسی ایوانوں اور عدالتوں میں  بنام تحفظِ آدم و انسانیت جھوٹے  حلف اٹھائے جا تے ہیں اور پھر انہی ایوانوں کے دروازوں پر حق تلفی کی  بے گور و کفن لاش کو وطن عزیز کی نوحہ گر فضاوں کے سپرد کردیا جاتا ہے  محسوس ہوتا ہے کہ مکمل نظام و مکمل تہذیب ہی بے حسی کی نذر ہوکر  کھنڈر میں تبدیل ہوچکی ہے ،۔ایسے نامساعد حالات میں کیا اس سے بہتر بھی کوئی شعر کہا جاسکتا ہے۔
اے زمیں تجھ پہ اتر کر یہ مجھے ہو گیا کیاآسمانوں پہ تو انسان بنایا گیا تھا۔
جس عہد میں اپنی خودی  خودداری انا اور خود آگہی کے جنازے قلم کار خود اٹھائے پھر رہے ہوں وہاں شاعری کرنا ایک مستحسن عمل ہے   لیکن اظہر عنایتی شاید  دوسرے شاعروں سے اسی لئے مختلف ہیں کہ انہوں نے  صرف شاعری نہیں کی ہے بلکہ شاعری کے حوالے سے تہذیب و ادب کے نئے باب رقم کئے ہیں ، محسوس ہوتا ہے انہوں نے خود آگہی اور خدا آگہی کے بھید کو جان لیا ہے انہیں معلوم ہے کہ خودی در اصل  معرفتِ خدا ہے  یہ خدا پرستی خدا دوستی  اور خدا بینی کا ہی نام ہے جس کے ذریعے خودمختاری و خود اعتمادی کے راستے ہموار ہوتے ہیں اسی لئے  ان کی  روشنی کی لکیر کی طرح بے یقینی کے اندھیرے کو چیرتی ہوئ  آگے بڑھتی ہے -
اندھیرا ذہن میں ہوتا ہے راستوں میں نہیں،یہ نکتہ راہرووں کو بتا کے دیکھتے ہیں ،
چراغ ہو تو جلے جاؤ اعتماد کے ساتھیہاں ہواؤں کا رخ تو بدلتا رہتا ہے
یہی کرے گی کسی سمت کا تعین بھیاسی ہوا نے تو کھولا ہے باد بانوں کو
ہمارے تنقید نگاروں نے خودی اور خودداری کے حوالے سے جو وضاحتیں پیش کی ہیں ان کی اہمیت سے انکار نہیں۔ لیکن ہزاروں صفحات پر بکھرے بحث و مباحثے کے جواب میں اظہر عنایتی کے ذریعے تخلیق کئے گئے صرف چند شعر ہی اس  خلا کو پُر کرنے کے لئے کافی  ہیں ۔
ہو گیا اپنی ہی انا سے ہلاک دب گیا اپنی ہی چٹان سے میں
تنگ ہوتا ہے تو ہوجائے مراسم کا حصارشاخِ گل ہم بھی نہیں ہیں کہ لچکتے جائیں
شائبہ ہو جو بے نیازی کا شاخِ گل کا بھی میں سلام نہ لوں
آرٹ کو افادیت کے میزان پر تولنے والوں کے پاس اپنے جواز  ہیں تحریکات  و نظریات کے تناظر میں شاعری کی تفہیم و تعبیر کرنے والے اہل نقد و نظر بھی اپنی فکر اپنے احساس کی روشنی میں خود کو صحیح گردانتے ہیں، یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ ایسی کوئی ذوقی معنوی یا روحانی مسرت نہیں جو اپنا افادی پہلو نہ رکھتی ہو لیکن اپنے عہد کے مسائل اور حسیت کو جدیدیت تصور کرنے والے ذہنوں کے لئے  اظہر عنایتی کی شاعری وجودیت کی فکری تحریک بن کر ابھر تی ہےتمام تر جدّت کے باوجود  ان کی شاعری کی جڑیں  اردو شاعری کی زرخیز روایت کی زمین میں دور تک پھیلی ہوئی ہیں اظہر عنایتی کے نزدیک یہ زندگی تمام تلخ اور کھردری سچائیوں، گوناگوں مسائل اور دشوار ترین مراحل کے باوجود بھی اتنی حسین ہے کہ زندہ رہنے کے لئے مسلسل زہر پینے کو تیار ہے
خود کشی کے لئے تھوڑا سا یہ کافی ہے مگر،زندہ رہنے کو بہت زہر پیا جاتا ہے
حد سے بڑھتی ہوئی دانش میں بھی خطرے ہیں بہت،جانے کب کون سا لمحہ کسے پاگل کر دے
نہ جانے گزرے ہیں کتنے جلوس شاہوں کے،نہ جانے کب سے یہاں بوریہ نشین ہوں میںتوڑنے نکلا تھا جو شخص سہاروں کا طلسمآج گھر تک وہی دیوار پکڑ کر آیا،
ادب برائے ادب ادب برائے زندگی اور ادب برائے جمالیات کے نعرے بلند کرنے والے اہل بصیرت بھول گئے کہ اگر انسان اپنے ساتھ رہنے اور خود سے باتیں کرنے کا ہنر سیکھ جاتا ہے تو شور شرابے میں بھیگی ہوئی محفلوں کے ہنگامے بے معنی اور  مہمل ہو کر رہ جاتے ہیں اظہر عنایتی کا تو معاملہ ہی مختلف ہے  محسوس ہوتا ہے جیسے مکالمےمخاطبےاور مباحثے کی لازوال دولت ان کی تحویل میں آگئی ہے۔اس شاعر کی شعری اپروچ کو کون سا تنقیدی نظریہ اپنی گرفت میں لے سکتا ہے جس کی ایک آہٹ پر  چاند دریچے میں آتا ہے اور پھر  محبوب کے مقدس جمال کے تحفظ کے لئے وہ راہِ عشق کو بند کرنے کا متمنی ہوجاتا ہے
یہ بھی رہا ہے کوچہءِ جاناں میں اپنا رنگآہٹ ہوئی تو چاند دریچے میں آگیا
یہ راہِ عشق بھی اب کچھ دنوں کو بند کرویہ سبزا زار بھی اب پائمال ہونے لگا
اس تضاد کی بنیادی معنویت پر غور کیجئے تو محسوس ہوتا ہے کہ اظہر عنایتی انحراف روایت کے نہیں بلکہ اس توسیعِ روایت کے شاعر ہیں جس پر جدیدیت رشک کرتی ہے اظہر عنایتی کی جدت روایتی شاعری سے نہیں بلکہ فرسودہ شاعری سے بغاوت کا اعلان ہے یہی سبب ہے کہ ان کی شاعری نے صرف ہندو پاک میں ہی اپنے لا فانی نقش مرتسم نہیں کئے ہیں بلکہ مشرق وسطیٰ اور یوروپ و امریکہ کی اردو آبادی کو بھی اپنے سحر میں لیا ہے اور ان کے ذریعے تخلیق کئے گئے لاثانی اشعار کے توسط سے ان کا نام ارفع و اعلیٰ شعری ادب کی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو چکا ہے ۔۔
Published by:Sana Naeem
First published: