یہ ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ تاریخیں رقم کرنے والے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔۔ بقول شاعر ، ہزاروں سال نرگش اپنی بے نوری پہ روتی ہے ، بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا ۔ کہا جاتا ہے کہ خدا جن لوگوں سے عظیم کام لینا چاہتا ہے انہیں میراثِ لوح و قلم سونپ دیتا ہے ،جب ہم تعلیمی ترقی کے تناظر میں اپنے ملک کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسی بہت سی شخصیات ہمارے سامنے جلوہ فگن ہوجاتی ہی جن کی قربانیوں اور تعلیمی خدمات کی وجہ سے ہی ہمارے ملک نے پوری دنیا کے نقشے پر اعتبار و وقار قائم کیا یوں تو ایسے بہت سے اہم نام ہیں جن کی تعلیمی خدمات کے حوالے سے دفتر رقم کئے جاسکتے ہیں جنمیں سے چند کا ذکر ہم آج کے اس فیچر میں کررہے ہیں امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت مختلف کمالات و حسنات کا منبع،جدا گانہ خصائل و اوصاف کا مخزن اور بہت سے علوم و فنون کا مصدر و مرکز تھی، وہ ایک طرف اگر علم و فضل، دین وافکار،فلسفہ و حکمت، شعر و نغمہ اور تصنیف و تالیف میں فرد فرید تھے تو دوسری طرف خطابت، صحافت اور سیاست میں یکتائے زمانہ تھے، جن کے انداز خطابت پر فن خطابت خود نازاں، جن کی صحافت نے "الہلال" اور "البلاغ" جیسے عظیم ادبی اخبارت کی اشاعت کے ذریعے اردو صحافت کو ایک نئی سمت عطاء کی اور سیاسی تدبر ایسا کہ پنڈٹ نہرو اور مہاتما گاندھی جیسے بڑے سیاسی رہنماؤ ں نے بھی انھیں اپنا مشیر کار تسلیم کیا اور مختلف ملی و سماجی موقعوں پران کی سیاسی بصیرت سے مستفید بھی ہوتے رہے۔ماہر تعلیم رابندر ناتھ ٹیگور اور سوامی رادھا کر شنن کی تحریروں کا بنیادی مقصد سماج کی تعمیر نواور سیاسی بیداری تھا۔
بعد ازاں ٹیگور نے اپنی تحریروں میں اس وقت کے تعلیمی نظام پر تنقیدیں کرنا شروع کیں۔ ٹیگور نے نثر کے علاوہ نظم کو بھی اپنے خیالات کی ترجمانی کا ذریعہ بنایا۔ یہاں تک کہ ایک معروف شاعر اور نثر نگار کے طور پر بہت جلد معروف ہوگئے۔مغلیہ حکومت کا خاتمہ اور برطانیوی حکومت کا قیام دونوں کے عروج وزوال کے ما بین 1857 کا قیامت خیزمنظر نامہ ملک وملت کیلئے تباہ کن ثابت ہوا اس وقت اہل ہند اس درجہ منتشر ہو چکے تھے کہ دوبارہ پنپنے کی امید دور دور تک نظر نہیں آرہی تھی .اس کشمکش کی گھڑی میں دو مسیحا ئے وقت میدان عمل میں آئے اور جاں بلب سفینہ ملت کو طوفان ِ جہالت وافلاس سے باہر نکالا ، ان دور اندیش ہستیوں نے قوم کے زخموں پر مرہم کاری کی اور مسلمانوں کی احساس کمتری ختم کی اور بے جان قوم میں نئی روح پھونکی۔قوم کی پستی اور بد حالی پر سر سید احمد خان نے بہت آنسو بہائے اور کہا .میں اس وقت ہر گز نہیں سمجھتا تھا کہ قوم پھر پنپے گی اور کچھ عزت پائیگی اور جو حال اس وقت قوم کا تھا وہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا تھا۔
چند روز اسی خیال اور اسی غم میں رہا یقین کیجئے کہ اس غم نے مجھے نڈھا کر دیا اور میرے بال سفید کر دئے۔ سر سید اور علی گڈھ کی تحریک کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی گزشتہ ڈیڑھ سو سال کی فکری، علمی، سماجی، مذہبی، سیاسی اور ادبی تاریخ کا شاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہو جس پر سرسید اور علی گڑھ تحریک بلا واسطہ یا بالواسطہ اپنے اثرات نہ چھوڑے ہوںِ، سرسید اور ان کے رفقاء کے لیے مدرسۃ العلوم ایک تعلیمی درس گاہ، نئے فکری رجحانات کی ایک علامت ،احیاء ملی کی ایک تحریک کا نام تھا۔ یہاں "آدم گری" بھی ہوتی تھی اور تعمیر ملت کا سامان بھی مہیا کیا جاتا تھا۔ یہاں وقت کے اشاروں کو سمجھنا بھی سکھایا جاتا تھا اور اس کے دھاروں کو موڑنے کی صلاحیت بھی پیدا کی جاتی تھی۔
سرسید کی بلند حوصلگی، عزم راسخ خلوص نیت اور جہد مسلسل نے اس مشکل اور متنوع کام کو ایک تحریک کی شکل دے دی تھی۔ زمانے کے پیچ و خم کے ساتھ تحریک کے خد و خال بھی بدلتے رہے لیکن سرسید کے افکار کی معنویت ہر دور کے لیے بڑھتی ہی رہی اور ان کی یہ آواز برا بر فضاؤں میں گونجتی رہی جب ہم موجودہ عہد ہر نظر ڈالتے ہیں تو تعلیمی خدمات کے حوالے سے ہمارے سامنے ایک نہایت روشن نام انٹیگرل یونیورسٹی کے بانی و چانسلر محترم پروفیسر سید وسیم اختر کا بھی آتا ہے جنہوں نے اپنی ساری زندگی سماج کے دبے کچلے لوگوں کی تعلیمی بہبود اور ان کی فلاح کے لئے وقف کرکے ایک ایسی مشعل روشن کی جو پورے ملک قوم اور ملت کے لئے وجہءِ افتخار بن گئی۔ اہل علم و دانش نے تو یہاں تک کہا کہ ملک و ملت کو سید وسیم اختر کی شکل میں ایک اور سرسید مل گیا۔
بلا شبہ سرسید احمد خاں ، ابولکلام آزاد ، شبلی نعمانی ، ربندرناتھ ٹیگور ، سوامی رادھا کرشنن کی طرح پروفیسر وسیم اختر کی خدمات کو بھی چند صفحوں یا ابواب میں نہیں بیان کیا جاسکتا ان لوگوں کی خدمات اور قربانیوں کا داستانیں تاریخ کا حصہ بن رہی ہیں یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہمارے سماج کے سلجھے ہوئے اور با شعور لوگ بارہا یہ بھی اظہار کرتے ہیں کہ ہماری قوم ہمارے ملک کو پھر کسی سرسید پھر کسی آزاد کی ضرورت ہے لیکن سچائی یہ بھی ہے کہ جو لوگ اہم تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں ہم ان کے کتنے قدردان ہیں یہ پوری قوم پورے سماج کی ذمہداری ہے کہ وہ پروفیسر سید وسیم اختر ، ڈاکٹر سعید الرحمٰن اعظمی اور ایسے ہی دوسرے اہم لوگوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے وہ تمام خواب شرمندہءِ تعبیر کرنے کی کوشش کریں جو ابھی تشنہءِ تعبیر ہیں ۔۔
سب سے پہلے پڑھیں نیوز18اردوپر اردو خبریں، اردو میں بریکینگ نیوز ۔ آج کی تازہ خبر، لائیو نیوز اپ ڈیٹ، پڑھیں سب سے بھروسہ مند اردو نیوز،نیوز18 اردو ڈاٹ کام پر ، جانیئے اپنی ریاست ملک وبیرون ملک اور بالخصوص مشرقی وسطیٰ ،انٹرٹینمنٹ، اسپورٹس، بزنس، ہیلتھ، تعلیم وروزگار سے متعلق تمام تفصیلات۔ نیوز18 اردو کو ٹویٹر ، فیس بک ، انسٹاگرام ،یو ٹیوب ، ڈیلی ہنٹ ، شیئر چاٹ اور کوایپ پر فالو کریں ۔