اپنا ضلع منتخب کریں۔

    مرزا غالب کا 225 واں یوم پیدائش: اردو کے عظیم شاعر اب بھی اپنے پڑھنے والوں کے دلوں میں زندہ

    تصویر بشکریہ: رخشندہ جلیل فیس بک

    تصویر بشکریہ: رخشندہ جلیل فیس بک

    غالب کا کلام آج سرحدوں سے بھی ماور ہے۔ غالب کی اشعر اپنے پڑھنے والوں کو نہ صرف گہرے جذبات عطا کرتے ہیں، بلکہ ایک نیا کیف و سرور بھی عطا کرتے ہیں۔ وہ 27 دسمبر 1797 کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل تخلص (قلمی نام) اسد تھا۔

    • News18 Urdu
    • Last Updated :
    • Delhi, India
    • Share this:
    آج مرزا غالب کا 225 واں یوم پیدائش ہے۔ اردو کے عظیم شاعروں میں سے ایک مرزا اسد اللہ بیگ خان غالب (Mirza Asadullah Baig Khan Ghalib) کو مغل دور کا آخری عظیم اور بااثر شاعر سمجھا جاتا ہے۔ غالب کی شاعری کے علاوہ ان کے خطاط اب بھی شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔ وہ 27 دسمبر 1797 کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل تخلص (قلمی نام) اسد تھا، جو ان کے دیے گئے نام اسد اللہ خان سے اخذ کیا گیا تھا۔

    اپنے شاعرانہ دور کے اوائل میں کسی موقع پر انہوں نے غالب کا قلمی نام بھی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس کا مطلب فاتح، اعلیٰ، بہترین اور برتر کے ہے۔ غالب کا کلام آج سرحدوں سے بھی ماور ہے۔

    مشہور غزل ’دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے‘

    دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
    آخر اس درد کی دوا کیا ہے

    ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
    یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے


    میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
    کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے

    جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
    پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے


    یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
    غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے

    شکن زلف عنبریں کیوں ہے
    نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے

    سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
    ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے


    ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
    جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

    ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا
    اور درویش کی صدا کیا ہے


    جان تم پر نثار کرتا ہوں
    میں نہیں جانتا دعا کیا ہے

    میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
    مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے

    مرزا غالب کے مشہور اشعار

     

    ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
    وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

    یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
    اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا


    رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
    جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

    عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
    درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا

    ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
    دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

    محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
    اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

    ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
    بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے


    نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
    ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

    ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
    کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور

    آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہوتے تک
    کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک

    غالب کی اشعر اپنے پڑھنے والوں کو نہ صرف گہرے جذبات عطا کرتے ہیں، بلکہ ایک نیا کیف و سرور بھی عطا کرتے ہیں۔ اردو زبان کے بے مثال اور لاثانی شاعر مرزا غالب کا انتقال 15 فروری 1869 کو دہلی میں ہوا۔
    Published by:Mohammad Rahman Pasha
    First published: