ہندو- مسلم جوڑے کو بالآخر مل گیا پاسپورٹ ، درخواست خارج کرنے والے افسر نے دی یہ دلیل
اترپردیش کے لکھنئو میں الگ الگ مذہب والے جوڑے کی پاسپورٹ کی عرضی خارج کرنے اور انہیں مبینہ طور پر بے عزت کرنے والے پاسپورٹ افسر کا تبادلہ کردیا گیا ہے۔
- News18 Urdu
- Last Updated: Jun 21, 2018 04:17 PM IST

اس معاملہ پر تنازع کے بعد جوڑے کو پاسپورٹ دیدیا گیا ہے۔
اترپردیش کے لکھنئو میں الگ الگ مذہب والے جوڑے کی پاسپورٹ کی عرضی خارج کرنے اور انہیں مبینہ طور پر بے عزت کرنے والے پاسپورٹ افسر کا تبادلہ کردیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس معاملہ میں جانچ کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ اس معاملہ کا وزارت خارجہ کے سکریٹری ڈی ایم ملیئے نے بھی نوٹس لیتے ہوئے جلد ہی مناسب کارروائی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ایک دوسرے افسر نے بتایا کہ متاثرہ جوڑے کو بدھ کو پاسپورٹ آفس بلایا گیا اور آج جمعرات کو ان کا پاسپورٹ بھی بنا دیا گیا ۔
دراصل اس جوڑے نے شکایت کی تھی کہ پاسپورٹ افسر نے ان کی عرضی اس لئے خارج کردی کیونکہ وہ الگ الگ مذہب سے تھے ۔ نیوز 18 سے بات چیت کرتے ہوئے انس اور تنوی نے الزام لگایا کہ پاسپورٹ افسر نے بین مذاہب شادی کی وجہ سے انہیں شرمندہ کرتے ہوئے ان کی درخواست خارج کردی ۔ انس نے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتایا کہ اس افسر نے انہیں اپنا مذہب تبدیل کرکے ہندو بننے کی بھی نصیحت کی ۔ جوڑے نے وزیر خارجہ سشما سوراج اور پی ایم او کو ٹویٹ کرکے اس کی معلومات دی اور اس معاملہ میں مداخلت کی اپیل کی ۔
ادھر پاسپورٹ افسر وکاس مشرا نے اپنے اوپر لگے سبھی الزامات کو خارج کیا ہے ۔ ان کا کہنا کہ انہوں نے تنوی سیٹھ کے نکاح نامہ میں مسلم اور درخواست میں ہندو نام ہونے پر سوال اٹھایا تھا ۔ افسر نے کہا کہ تنوی سے اس کے نکاح نامہ میں لکھے نام کا ہی استعمال کرنے کیلے کہا تھا ، جس کیلئے انہوں نے منع کردیا ۔
اطلاعات کے مطابق محمد انس صدیقی نے سال 2007 میں لکھنئو میں تنوی سیٹھ کے ساتھ شادی کی اور اپنی اہلیہ کے پاسپورٹ کیلئے درخواست دی تھی ۔ 20 جون کو لکھنئو کے پاسپورٹ آفس میں ان کا اپوائنٹمنٹ تھا۔ بتایا جارہا ہے کہ جوڑے نے انٹرویو اسٹیج اے اور بی کلیئر کرلیا تھا ، مگر سی اسٹیج میں پوچھے گئے سوالوں کو لے کر پریشانی ہوگئی ۔
Their passports have been issued. A show cause notice has been issued to the official who was at fault, action will also be taken. We regret the incident & will ensure it is not repeated: Regional Passport Officer, Lucknow on inter-faith couple being harassed at passport office. pic.twitter.com/pBRRihxING
— ANI UP (@ANINewsUP) June 21, 2018
نیوز 18 کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے انس نے بتایا کہ مجھ سے پہلے میری اہلیہ کی باری آئی۔ وہ سی 5 کاونٹر پر گئی تو وکاس مشرا نام کا ایک افسر اس کے دستاویز چیک کرنے لگا ۔ جب اس نے شوہر / بیوی کے نام کے کالم میں محمد انس صدیقی لکھا دیکھا تو میری اہلیہ پر چیخنے لگا ۔ افسر کا کہنا تھا کہ اسے ( میری اہلیہ کو ) مجھ سے شادی نہیں کرنی چاہئے تھی۔ میری اہلیہ رو رہی تھی جس کے بعد افسر نے اس سے کہا کہ وہ سبھی دستاویز میں اصلاح کرکے دوبارہ آئے ۔
انس نے بتایا کہ میری اہلیہ تنوی نے افسر سے کہا کہ وہ اپنا نام تبدیل کروانا نہیں چاہتی ، کیونکہ ہمارے کنبہ کو اس سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ یہ سنتے ہی پاسپورٹ افسر نے اس سے کہا کہ وہ اے پی او آفس چلی جائے کیونکہ اس کی فائل اے پی او آفس بھیجی جارہی ہے۔
انس صدیقی کے مطابق اس کے بعد پاسپورٹ افسر وکاس مشرا نے مجھے بلایا اور بے عزت کرنے لگا ۔ اس نے کہا کہ میں ہندو مذہب اختیار کرلوں ورنہ میری شادی تسلیم نہیں کی جائے گی ۔ اس نے کہا کہ ہمیں پھیرے لے کر شادی کرنی چاہئے اور مذہب تبدیل کرلینا چاہئے۔