اپنا ضلع منتخب کریں۔

    کشمیر پر بولے راج ناتھ، بات چیت کے لئے ہمارا دروازہ ہی نہیں، روشن دان بھی کھلے ہیں

    پیر کو وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے پریس کانفرنس کر کے کہا کہ مجھے پتہ ہے کشمیر کے لوگ بھی جانتے ہیں۔ کل وفد کے کچھ ممبر حریت لیڈر سے ملنے گئے تھے۔ اس کے لئے نہ ہم نے نہ کہا تھا نا ہاں کہا تھا۔

    پیر کو وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے پریس کانفرنس کر کے کہا کہ مجھے پتہ ہے کشمیر کے لوگ بھی جانتے ہیں۔ کل وفد کے کچھ ممبر حریت لیڈر سے ملنے گئے تھے۔ اس کے لئے نہ ہم نے نہ کہا تھا نا ہاں کہا تھا۔

    پیر کو وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے پریس کانفرنس کر کے کہا کہ مجھے پتہ ہے کشمیر کے لوگ بھی جانتے ہیں۔ کل وفد کے کچھ ممبر حریت لیڈر سے ملنے گئے تھے۔ اس کے لئے نہ ہم نے نہ کہا تھا نا ہاں کہا تھا۔

    • IBN Khabar
    • Last Updated :
    • Share this:

      سرینگر۔ کشمیر میں بگڑے حالات کے درمیان کل جماعتی وفد اتوار کو سرینگر پہنچا تھا لیکن علیحدگی پسندوں نے سخت رخ اپناتے ہوئے کمیٹی کے ارکان  سے بات چیت سے انکار کر دیا۔ اس معاملے پر وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے حریت رہنماؤں کو پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ حریت لیڈروں کو جمہوریت میں یقین نہیں ہے۔ ان میں نہ کشمیریت ہے نا جمہوریت۔


      پیر کو وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے پریس کانفرنس کر کے کہا کہ مجھے پتہ ہے کشمیر کے لوگ بھی جانتے ہیں۔ کل وفد کے کچھ ممبر حریت لیڈر سے ملنے گئے تھے۔ اس کے لئے نہ ہم نے نہ کہا تھا نا ہاں کہا تھا۔ لیکن جو بھی ہوا اس کی معلومات آپ کو ہے اس لئے ڈٹیل میں نہیں جانا چاہتا۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد ان دوستوں نے جو معلومات دی اس سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کشمیریت تو نہیں ہے نا یہ انسانیت ہے۔


      راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ کمیٹی کے سامنے سینکڑوں لوگوں نے اپنی بات رکھی۔ سب کی یہی خواہش تھی کہ کشمیر کے حالات سدھرنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی سب سے بڑی پنچایت پارلیمنٹ ہوتی ہے۔ مسئلہ کشمیر کو لے کر پنچایت انتہائی سنجیدہ ہے، اسی پنچایت نے یہ فیصلہ لیا کہ کشمیر کے مسئلے کے لئے وہاں ایک وفد جانا چاہئے۔ تقریبا 300 لوگوں نے وفد کے سامنے اپنی بات رکھی۔ وفد نے اتوار کو جموں وکشمیر کے گورنر، وزیر اعلی اور ریاستی افسران  سے بھی بات کی ہے۔ راج ناتھ سنگھ نے کشمیر معاملے پر پاکستان سے بات کرنے والے سوال پر کہا کہ بات ملک کے باہر مت لے جائیں، پہلے ملک میں رہنے والے لوگوں سے بات کر رہے ہیں۔

      First published: