غلط ادراک، غلط فیصلہ... مسلمانوں کے 4 فیصد ریزرویشن ختم کرنے پر کرناٹک حکومت کو سپریم کورٹ کی پھٹکار

سپریم کورٹ

سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے جمعرات کو کہا کہ او بی سی (دیگر پسماندہ طبقات) مسلمانوں کے لیے چار فیصد ریزرویشن کو ختم کرنے کا کرناٹک حکومت کا فیصلہ پوری طرح سے غلط معلوم ہوتا ہے۔ جسٹس کے. ایم جوزف اور جسٹس بی۔ وی ناگ رتھنا کی بنچ نے کہا کہ عدالت کے سامنے پیش کیے گئے ریکارڈ سے ایسا لگتا ہے کہ کرناٹک حکومت کا فیصلہ 'پوری طرح سے غلط ادراک' پر مبنی ہے۔

  • News18 Urdu
  • Last Updated :
  • New Delhi, India
  • Share this:
    نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو کہا کہ سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں ووکالیگا اور لنگایت برادریوں کے لیے ریزرویشن (Reservation) میں دو دو فی صد بڑھانے  اور او بی سی (دیگر پسماندہ طبقات) مسلمانوں کے لیے چار فیصد ریزرویشن کو ختم کرنے کا کرناٹک حکومت کا فیصلہ پوری طرح سے غلط معلوم ہوتا ہے۔ جسٹس کے. ایم جوزف (KM Joseph) اور جسٹس بی۔ وی ناگ رتھنا (BV Nagarathna) کی بنچ نے کہا کہ عدالت کے سامنے پیش کیے گئے ریکارڈ سے ایسا لگتا ہے کہ کرناٹک حکومت کا فیصلہ 'پوری طرح سے غلط ادراک' پر مبنی ہے۔ کرناٹک کے مسلم کمیونٹی کے ارکان کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل کپل سبل، دشینت ڈیو اور گوپال شنکر نارائنن نے کہا کہ کوئی مطالعہ نہیں کیا گیا تھا اور مسلمانوں کا ریزرویشن ختم کرنے کے لیے  حکومت کے پاس کوئی حقیقی ڈیٹا نہیں تھا۔

    کرناٹک کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے ان عرضیوں  پر جواب داخل کرنے کے لیے کچھ وقت دینے کی درخواست کی اور بنچ کو یقین دلایا کہ 24 مارچ کے حکومتی حکم کی بنیاد پر کوئی تقرری اور داخلہ نہیں دیا۔ ووکالیگا اور لنگایت برادریوں کے ارکان کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل مکل روہتگی نے کہا کہ انہیں عرضیوں پر اپنا جواب داخل کرنے کی اجازت دیئے بغیر کوئی عبوری حکم نہیں پاس کیا جانا چاہئے۔ بنچ نے کہا کہ 'اگر عدالت کو یقین دلایا جائے کہ حکومت کے حکم کی بنیاد پر کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی تو ہم کوئی عبوری حکم جاری نہیں کریں گے'۔

    دنیا کے 100 سب سے ’بااثر‘ شخصیات کی فہرست جاری، شاہ رخ خان-راجا مولی کو ملی جگہ

    بی جے پی کارکنان عید کے موقع پر مسلمانوں کے گھروں کا دورہ کر 'عید الفطر' کی دیں گے مبارک باد

    'حکومت نے کس عجلت میں حکم جاری کیا'
    سپریم کورٹ کی بنچ نے اس معاملے کی اگلی سماعت کے لیے 18 اپریل کی تاریخ مقرر کی اور مہتا اور روہتگی سے اپنا جواب داخل کرنے کو کہا۔ سماعت کے دوران بنچ نے مہتا سے کہا کہ ہمارے سامنے پیش کئے گئے دستاویزات کی بنیاد پر ایسا لگتا ہے کہ مسلمان پسماندہ تھے اور پھر اچانک یہ بدل گیا۔ قانون کے طالب علم کے طور پر، پہلی نظر سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت کا حکم پوری طرح سے غلط ادراک پر مبنی ہے۔'' جسٹس بی۔ وی ناگ رتھنا نے پوچھا کہ حکومت نے کس عجلت میں حکم جاری کیا؟ انہوں نے کہا کہ یہ ایک عبوری رپورٹ پر مبنی ہے اور ریاست کو حتمی رپورٹ ملنے کا انتظار کرنا چاہئے تھا۔

    کرناٹک میں ریزرویشن کی حد تقریباً 57 فیصدی ہوئی
    جبکہ تشار مہتا نے کہا کہ 'مذہب کی بنیاد پر کہیں بھی ریزرویشن نہیں دیا جا سکتا اور اگر دیا گیا ہے تو یہ ایک غلطی ہے'۔ کرناٹک میں پوری مسلم کمیونٹی کو ریزرویشن سے انکار نہیں کیا گیا ہے۔ انہیں معاشی طور پر کمزور طبقے کے زمرے میں 10 فیصد ریزرویشن دیا گیا ہے۔ کچھ دیگر مسلم کمیونٹیز جیسے پنجارہ، منصوری وغیرہ ہیں، جو او بی سی زمرے میں آتے ہیں اور اب بھی ریزرویشن حاصل کر رہے ہیں۔"

    اہم بات یہ ہے کہ کرناٹک میں وزیر اعلی بسواراج بومائی کی حکومت نے حال ہی میں ریاست میں مسلمانوں کے لیے دستیاب چار فیصد ریزرویشن کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا. کرناٹک حکومت نے سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں ریزرویشن کے دو نئے زمروں کا اعلان کیا تھا، جس میں دیگر پسماندہ طبقات کے مسلمانوں کے لیے چار فیصد کوٹہ ختم کیا گیا تھا۔ او بی سی مسلمانوں کے لیے چار فیصد کوٹہ ووکالیگا اور لنگایت برادریوں کے درمیان تقسیم کیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ریزرویشن کے اہل مسلمانوں کو معاشی طور پر کمزور طبقوں میں درجہ بندی کیا گیا ہے۔ ریاستی حکومت کے فیصلے کے بعد اب وہاں ریزرویشن کی حد بڑھ کر 57 فیصدی ہو گئی ہے۔
    Published by:sibghatullah
    First published: