نئی دہلی : سپریم کورٹ نے جمعرات کو اپنے ایک اہم فیصلہ میں کہا کہ کلیسائی ٹربیونل کی طرف کینن لا (کرسچن پرسنل لا) کے تحت طلاق دینا قانونی طور پر درست نہیں ہے۔ کورٹ نے کہا کہ ڈائیوورس ایکٹ کے بعد کرسچن پرسنل لا کے تحت طلاق نہیں ہو سکتا، بلکہ ایکٹ نافذ العمل ہوگا۔
عدالت عظمی نے کہا کہ کرسچن جوڑے کا طلاق قانونی طور پر تبھی درست ہوگا ، جب وہ ہندوستانی قانون کے تحت لیا گیا ہو۔ پرسنل لا پارلیمنٹ کی طرف سے بنائے گئے قانون کی جگہ نہیں لے سکتا۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے اس پی آئی ایل کو بھی مسترد کر دیا ، جس میں چرچ کی طرف سے دی گئی طلاق کے معاملہ کو قانونی منظوری دئے جانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس جے ایس كھیهر اور جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی بنچ نے اس معاملے میں کرناٹک کیتھولک ایسوسی ایشن کے سابق صدر سی پائس کی جانب سے داخل عرضی کو مسترد کر دیا۔ کورٹ نے کہا کہ 1996 میں سپریم کورٹ سے جوزف بمقابلہ جارج سیبسٹین کے معاملہ میں پہلے ہی فیصلہ دیا جا چکا ہے ۔سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ طلاق ایکٹ آنے کے بعد سے پرسنل لا کے تحت شادی ختم کرنے کا کوئی قانونی جوازنہیں ہے۔
درخواست گزار نے اپنی عرضی میں کہا تھا کہ چرچ کی طرف سے طلاق کو تسلیم کیا جانا چاہئے ، کیونکہ یہ پرسنل لا کے تحت آتا ہے اور اسے ہندوستانی قانون کے تحت تسلیم کیا جانا چاہئے۔ ان کی دلیل دی تھی کہ مسلم پرسنل لا کے تحت جس طرح سے تین طلاق کو منظوری دی جاتی ہے ، اسی طرح انہیں بھی منظوری ملنی چاہئے۔
سی پائس کی جانب سے پیش سینئر ایڈووکیٹ سولي سوراب جي نے کہا کہ جب زبانی تین طلاق کے معاملہ کو قانونی منظوری ملی ہوئی ہے ، تو پھر کینن لا (کرسچن پرسنل لا) کے تحت دیے گئے طلاق کو کیوں منظوری نہیں ملنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کئی کیتھولک کرسچن جنہوں نے کرسچن کورٹ کی طرف سے طلاق کے بعد دوبارہ شادی کی ہے ، ان کو پہلی بیوی کے رہتے ہوئے دوسری شادی کرنے کے تحت فوجداری معاملات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، کیونکہ کریمنل اور سول کورٹ اس کو تسلیم نہیں کرتے ۔
درخواست گزار نے یہ بھی دلیل دی ہے کہ مسلم پرسنل لا کے تحت جب تین طلاق کو تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر شادی ختم ہو سکتی ہے ، تو پھر انصاف کا تقاضہ یہی ہے کہ انڈین کیتھولک کے پرسنل لا، کینن لا کے تحت ہونے والے طلاق کو بھی تسلیم کیا جانا چاہئے۔ خیال رہے کہ کیتھولک عیسائیوں میں شادی، طلاق وغیرہ چرچ کے فیصلے کے ذریعے ہوتے ہیں، ایسے میں چرچ کی طرف سے دئے جانے والے احکامات کو تسلیم کیا جائے۔
ادھر مرکزی حکومت نے درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ کینن لا، انڈین کرسچن میرج ایکٹ 1872 اور طلاق ایکٹ 1869 پر مؤثر نہیں ہو سکتا۔ چونکہ شادی ختم کرنے سے متعلق فیصلہ کرنے کا حق صرف کورٹ کو ہے ایسے میں چرچ ٹربیونل سمیت دیگر اتھارٹی کو ایسا حق نہیں ہے کہ وہ شادی کو ختم کرنے کا فرمان جاری کریں۔
سب سے پہلے پڑھیں نیوز18اردوپر اردو خبریں، اردو میں بریکینگ نیوز ۔ آج کی تازہ خبر، لائیو نیوز اپ ڈیٹ، پڑھیں سب سے بھروسہ مند اردو نیوز،نیوز18 اردو ڈاٹ کام پر ، جانیئے اپنی ریاست ملک وبیرون ملک اور بالخصوص مشرقی وسطیٰ ،انٹرٹینمنٹ، اسپورٹس، بزنس، ہیلتھ، تعلیم وروزگار سے متعلق تمام تفصیلات۔ نیوز18 اردو کو ٹویٹر ، فیس بک ، انسٹاگرام ،یو ٹیوب ، ڈیلی ہنٹ ، شیئر چاٹ اور کوایپ پر فالو کریں ۔