اپنا ضلع منتخب کریں۔

    آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا بیان، Common Civil Code دستور مخالف اور اقلیت مخالف قدم، مسلمانوں کیلئے یہ ہرگز قابل قبول نہیں

    Youtube Video

    وہی اس پورے معاملے پر مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن مولانا محسن تقوی نے صاف طور پر کہا ہے کہ  کامن سول کوڈ کی مخالفت اس لیے ہے کیونکہ اگر کامن سول کوڈ آتا ہے تو ہمارا شریعت پر عمل کرنا مشکل ہو جائے گا اس کے علاوہ ہندوستان ایسا ملک ہے جس میں میں طرح طرح کے اور الگ مذاہب کے لوگ بستے ہیں قبائل بستے ہیں جن کو پہلے سے ہی اپنے رسم و رواج پر چلنے کی اجازت ہے۔

    • Share this:
    کامن سول کوڈ Common Civil Code کو لے کر ایک بار پھر ملک میں بحث تیز ہو گئی ہے کیوں کہ وزیر داخلہ امت شاہ کی جانب سے ملک میں کامن سول کوڈ کو لے کر بیان دیا گیا تھا جس کے جواب میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے اپنے پریس نوٹ میں کہا ہے کہ دستور ہند نے ملک میں بسنے والے ہر شہری کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گذارنے کی اجازت دی ہے اور اس کو بنیادی حقوق میں شامل رکھا گیا ہے، اس حق کے تحت اقلیتوں اور قبائلی طبقات کے لئے ان کی مرضی اور روایات کے مطابق الگ الگ پرسنل لا رکھے گئے ہیں ، جس سے ملک کو کوئی نقصان نہیں ہوتا ہے بلکہ آ پستی اتحاد اور اکثریت واقلیت کے درمیان باہمی اعتماد کو قائم رکھنے میں اس سے مددلتی ہے، ماضی میں کئی قبائلی بغاوتوں کوختم کرنے کے لئے ان کے اس مطالبہ کو قبول کیا گیا ہے کہ وہ سماجی زندگی میں اپنے یقین اوراپنی روایات پر مل کر سکیں گے، اب اتراکھنڈ یا اتر پردیش حکومت یا مرکزی حکومت کی طرف سے کامن سول کوڈ کا راگ الاپنا صرف بے وقت کی راگنی ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ اس کا مقصد بڑھتی ہوئی گرانی گرتی ہوئی معیشت اور روزافزوں بے روز گاری جیسے مسائل سے توجہ ہٹانا اور نفرت کے ایجنڈے کو فروغ دینا ہے، یہ اقلیت مخالف اور دستور مخالف قدم ہے، مسلمانوں کے لئے یہ ہرگز قابل قبول نہیں ہے ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اس کی سخت مذمت کرتا ہے اور حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کرے۔

    پرسنل لا بورڈ کو مسلم تنظیموں سے بھی بھرپور حمایت حاصل ہو رہی ہے مولانا جلال حیدر نقوی نے اس پوری بحث کو لے کر نیوز18 سے بات کرتے ہوئے کہا ہے ہے مسلم تنظیمیں میں کامن سول کوڈ کی بھرپور مخالفت کریں گے حکومت کو کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس سے سماج میں دوری پیدا ہو اور اختلاف پیدا ہو کامن سول کوڈ سے فی الحال ملک میں دوری پیدا ہوگی ہمارا ملک بھی ترقی کر سکتا ہے جب ہندو مسلمان سبھی متحد ہو جائیں۔

    وہی اس پورے معاملے پر مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن مولانا محسن تقوی نے صاف طور پر کہا ہے کہ کامن سول کوڈ کی مخالفت اس لیے ہے کیونکہ اگر کامن سول کوڈ آتا ہے تو ہمارا شریعت پر عمل کرنا مشکل ہو جائے گا اس کے علاوہ ہندوستان ایسا ملک ہے جس میں میں طرح طرح کے اور الگ مذاہب کے لوگ بستے ہیں قبائل بستے ہیں جن کو پہلے سے ہی اپنے رسم و رواج پر چلنے کی اجازت دی گئی ہے شمالی ہند اور جنوبی ہند میں بھی الگ الگ طرح کی ریتی رواج ہیں اسی طرح سے الگ الگ مذاہب کے اپنے اپنے سول لاء ہیں میرا ماننا ہے کہ اس ملک میں کامن سول کوڈ ممکن ہی نہیں ہے
    Published by:Sana Naeem
    First published: