اپنا ضلع منتخب کریں۔

    ایودھیا تنازع : سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف ان تین پوائنٹس کی بنیاد پر نظر ثانی کی عرضی داخل کرے گا مسلم پرسنل لا بورڈ

    ایودھیا تنازع : ان تین پوائنٹس کی بنیاد پر نظر ثانی کی عرضی داخل کرے گا مسلم پرسنل لا بورڈ

    ایودھیا تنازع : ان تین پوائنٹس کی بنیاد پر نظر ثانی کی عرضی داخل کرے گا مسلم پرسنل لا بورڈ

    آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اعلان کیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی عرضی داخل کرے گا ۔

    • Share this:
      آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اعلان کیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی عرضی داخل کرے گا ۔ اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ کے ممتازڈگری کالج میں تین گھنٹوں تک جاری رہی میٹنگ میں بورڈ نے یہ فیصلہ کیا ۔ بورڈ کی پریس کانفرنس میں سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ بورڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف نظرثانی کی عرضی داخل کرے گا ۔ انہوں نے کہا کہ بورڈ نے ساتھ ہی یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ مسجد کے لئے دی گئی پانچ ایکڑ زمین منظورنہیں ہے۔

      مولانا سید رابع حسنی ندوی کی صدارت میں بورڈ کی میٹنگ ہوئی ۔ میٹنگ میں سپریم کورٹ کے ایودھیا فیصلہ کے 10 نکات پرتبادلہ خیال کیا گیا ، جن میں خاص طورپرسپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہےکہ 1857 سے 1949 تک بابری مسجد کے تین گنبد والی عمارت اورمسجد کا اندرونی حصہ مسلمانوں کے قبضےاوراستعمال میں رہا ہے۔

      نظر ثانی کی عرضی کیلئے تین پوائنٹس

      پہلا پوائنٹ

      جب 22 ، 23 دسمبر 1949 کی رات طاقت کے دم پر بھگوان رام کی مورتی اور دیگر مورتیوں کو رکھا جانا غیر قانونی تھا تو اس طرح غیر قانونی طورپر رکھی گئی مورتیوں کو دیوتا کیسے مان لیا گیا ؟ جو ہندو مذہب کے مطابق بھی دیوتا نہیں ہوسکتا ہے ۔

      دوسرا پوائنٹ

      جب بابری مسجد میں 1857 سے 1949 تک مسلمانوں کا قبضہ اور نماز پڑھا جانا ثابت مانا گیا ہے ، تو عرضی نمبر 5 کے عرضی گزار نمبر ایک کو مسجد کی زمین کس بنیاد پر دیدی گئی ؟۔

      تیسرا پوائنٹ

      آئین کے آرٹیکل 142 کا استعمال کرتے وقت ججوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ 104 اے اور 51 ( 1 ) کے تحت مسجد کی زمین کا تبادلہ یا ٹرانسفر پوری طرح ممنوع ہے ۔ تو قانون کے خلاف اور مذکورہ آئینی روک / پابندی کو آرٹیکل 142 کے تحت مسجد کی زمین کے بدلے میں دوسری زمین کیسے دی جاسکتی ہے ؟ جبکہ خود عدالت عظمی نے اپنے دوسرے فیصلہ میں واضح کر رکھا ہے کہ آرٹیکل 142 کے اختیارات کا استعمال کرنے کی ججوں کیلئے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے ۔
      First published: