نئی دہلی۔ ہاشم پورہ قتل عام کو ریاست کی ناکامی قرار دیتے ہوئے اس وقت کے غازی آباد کے پولیس سپرنٹنڈنٹ وبھوتی نارائن رائے نے کہا کہ یہ حکومت، افسران، سیاست داں اور تمام شبعہ ہائے حیات کی ناکامی ہے۔ یہ بات انہوں نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں منعقدہ ایک سیمنار میں کہی۔ انہوں نے ہاشم پورہ سانحہ کو آزادی کے بعد سب سے بڑا حراستی قتل (کسٹوڈیل کلنگ) قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب بھی کسی کو حراست میں لیا جاتا ہے تو اس کی حفاظت کی ذمہ داری اسٹیٹ کی ہوتی ہے یہاں تک کہ جنگ کے دوران گرفتار کئے گئے لوگوں کی بھی حفاظت کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے لیکن ہاشم پورہ معاملے میں ریاست اور اس کے شعبے پوری طرح ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہاشم پورہ سانحہ کا جائزہ لیتے وقت سب سے شرمناک پہلو جو سامنے آیا وہ میڈیا تھا اور دہلی غازی آباد کی سرحد پر رونما ہونے والے اس وحشیانہ قتل عام سے قومی میڈیا کیسے بے خبر رہا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ نیشنل میڈیا دس دنوں تک اس سلسلے میں خاموش رہا۔ اس کے بعد اس سلسلے میں کچھ خبریں آنی شروع ہوئیں۔
مسٹر وبھوتی نارائن نے کہا کہ 25 برس کے بعد نچلی عدالت کا ادھورا فیصلہ آیا اوراب معاملہ ہائی کورٹ میں ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ایسا نہیں لگتا کہ پانچ دس برسوں میں اس کا فیصلہ آجائے گا۔ مسٹر وبھوتی نارائن کی تصنیف کردہ کتاب ’’ہاشم پورہ 22مئی‘‘ پر منعقدہ سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر شمس الاسلام نے کہا کہ ہاشم پورہ قتل عام کے سلسلے میں اب تک صحیح تعداد معلوم نہیں ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ ہلاک ہونے والوں میں ان لوگوں کو شامل نہیں کیا گیا جو اترپردیش کے دوسرے علاقے یا بہار سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ ہاشم پورہ قتل عام کے شکار نچلے طبقے کے مسلمان تھے اس لئے بہت زیادہ واویلا نہیں مچا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ملک میں دو طرح کے قانون رائج ہیں، ایک اکثریت کے لئے اور ایک اقلیت کے لئے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اکثریتی طبقہ جو دہشت گردی انجام دیتا ہے وہ دنگا کہلاتی ہے اور اقلیتی طبقہ جو جرم کرتا ہے وہ دہشت گردی کہلاتا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ دلت، سکھ ، مسلمان اور کمزور طبقہ سے اگر کوئی جرم سرزد ہوجاتا ہے تو اسے فاسٹ ٹریک کورٹ لے جا کر جلد فیصلہ سنا دیا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آزاد ہندوستان میں جس کو سب سے پہلے پھانسی دی گئی وہ آندھرا پردیش کے دو دلت کسان تھے۔انہوں نے آسام کے نیلی اور ممبئی فسادات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان سب معاملات میں خاطیوں کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔
مشہور شاعر شیام کشیپ نے کہاکہ جب بھی فسطائی طاقتیں برسراقتدار آتی ہیں ان کا نشانہ سب سے پہلے علم، قلم، کتاب، فن اور فنکار اور ہر چیز ہوتی ہے جس سے اظہار آزادی جھلکتی ہو۔ انہوں نے ہندوستان کی سول سوسائٹی کی بے حسی پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ کوئی فسطائی کسی کو پیٹ رہا ہوتا ہے تو کوئی بچانے نہیں آتا۔ سب لوگ تماشہ دیکھتے ہیں۔ پروفیسر علی جاوید نے ہاشم پورہ معاملے کو وحشیانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کانگریس حکومت پر بدترین داغ ہے اور اس کے بعد آنے والی سیکولر حکومت نے بھی کوئی پیش رفت نہیں کی اور نہ ہی خاطیوں کو سزا دلانے کے لئے کوئی کام کیا۔ اس سے قبل’’ مصنفین کے سامنے اظہار آزادی کے چیلنج ‘‘کے موضوع پر سیمنار بھی ہوا جس میں متعدد سرکردہ شخصیات نے اظہار خیال کیا۔ واضح رہے کہ مسٹروبھوتی نارائن نے بہت ہی تحقیق کے بعد ہاشم پورہ پر شواہد کے ساتھ کتاب لکھی ہے۔اس پروگرام کا انعقاد انجمن ترقی پسند مصنفین نے کیا تھا۔
سب سے پہلے پڑھیں نیوز18اردوپر اردو خبریں، اردو میں بریکینگ نیوز ۔ آج کی تازہ خبر، لائیو نیوز اپ ڈیٹ، پڑھیں سب سے بھروسہ مند اردو نیوز،نیوز18 اردو ڈاٹ کام پر ، جانیئے اپنی ریاست ملک وبیرون ملک اور بالخصوص مشرقی وسطیٰ ،انٹرٹینمنٹ، اسپورٹس، بزنس، ہیلتھ، تعلیم وروزگار سے متعلق تمام تفصیلات۔ نیوز18 اردو کو ٹویٹر ، فیس بک ، انسٹاگرام ،یو ٹیوب ، ڈیلی ہنٹ ، شیئر چاٹ اور کوایپ پر فالو کریں ۔