اپنا ضلع منتخب کریں۔

    بنگلورو تشدد معاملہ، NIA جانچ شروع، مسلم لیڈروں، دانشوروں نے کیا تشویش کا اظہار

    11 اگست کی رات بنگلورو کے ڈی جے ہلی اور کے جی ہلی علاقوں میں پیش آئے تشدد کے معاملہ کی اب نیشنل Investigation ایجنسی جانچ کررہی ہے۔ این آئی اے کی ٹیم نے تشدد سے متاثرہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کیا ہے۔

    11 اگست کی رات بنگلورو کے ڈی جے ہلی اور کے جی ہلی علاقوں میں پیش آئے تشدد کے معاملہ کی اب نیشنل Investigation ایجنسی جانچ کررہی ہے۔ این آئی اے کی ٹیم نے تشدد سے متاثرہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کیا ہے۔

    11 اگست کی رات بنگلورو کے ڈی جے ہلی اور کے جی ہلی علاقوں میں پیش آئے تشدد کے معاملہ کی اب نیشنل Investigation ایجنسی جانچ کررہی ہے۔ این آئی اے کی ٹیم نے تشدد سے متاثرہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کیا ہے۔

    • News18 Urdu
    • Last Updated :
    • Share this:
    بنگلورو : 11 اگست کی رات بنگلورو کے ڈی جے ہلی اور کے جی ہلی علاقوں میں پیش آئے تشدد کے معاملہ کی اب نیشنل Investigation ایجنسی جانچ کررہی ہے۔ این آئی اے کی ٹیم نے تشدد سے متاثرہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کیا ہے۔ 24 ستمبر بروز جمعرات کو این آئی اے نے تشدد زدہ علاقوں کے 30 مقامات پر چھاپے مارتے ہوئے ائیر گن، ہتھیار، لوہے کے راڈز اور الیکٹرانک ڈیوائزس ضبط کئے ہیں۔پاپولر فرنٹ آف انڈیا (PFI) اور SDPI (سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا) سے متعلق دستاویزات بھی ضبط کئے ہیں۔ اس دوران تشدد کے بعد فرار ہوئے ایک اہم ملزم سید صادق کو این آئی اے نے گرفتار کیا ہے۔ سید صادق بینک میں وصولی ایجنٹ کے طور پر کام کررہا تھا۔ واضح رہے اس تشدد کے واقعہ کی ریاستی حکومت CCB (سینٹرل کرائم برانچ) پولیس سے جانچ کروارہی تھی۔ اس دوران حکومت نے معاملے کو این آئی اے کے سپرد کرنے کا فیصلہ لیا۔ قومی تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے تین دنوں قبل معاملہ درج کرتے ہوئے تحقیقات شروع کی ہیں۔ دوسری جانب مسلم لیڈروں اور دانشوروں نے اس پورے معاملے کو این آئی اے کے حوالے کئے جانے پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔

    سابق مرکزی وزیر کے رحمٰن خان نے کہا کہ ملک میں ایک افسوسناک طریقہ اختیار کیا جارہا ہے۔ کہیں بھی فساد یا تشدد برپا ہوتا ہے، اگر مسلم طبقہ کے نوجوان شامل ہوں تو اس معاملے کو ایک بڑا ایشو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ معاملہ کو دہشت گردی، منشیات اور دیگر سنگین جرائم سے جوڑ دیاجاتا ہے۔ کے رحمٰن خان نے کہا کہ بنگلورو کے ڈی جے ہلی اور کے جی ہلی معاملے میں پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے مقامی ایم ایل اے کے رشتہ دار نے سوشل میڈیا میں ایک پوسٹ ڈالا تھا۔ اس کے رد عمل میں احتجاج اور پھر تشدد پھوٹ پڑا، پولیس اسٹیشن کو نشانہ بنایا گیا، ایم ایل اے کے گھر کو آگ لگائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اسطرح کے واقعات کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔

    اس معاملے میں پولیس اور عوام دونوں سے کوتاہی ہوئی ہے، معاملے کے پیچھے مقامی سیاست بھی کارفرما ہے۔ لیکن اس مقامی فساد کو قومی سطح کا ایک بڑا ایشو بنا کر پیش کرنا افسوس ناک ہے۔ کے رحمن خان نے کہا اس تشدد کی مقامی پولیس آسانی کے ساتھ تفتیش کرسکتی ہے۔ پولیس جانچ کافی ہے لیکن اس پورے معاملے کی قومی تحقیقاتی ادارے NIA سے جانچ کروانا سمجھ کے باہر ہے۔ سابق مرکزی وزیر کے رحمن خان نے SDPI کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ رحمن خان نے کہا کہ ایس ڈی پی آئی ہر معاملے میں مداخلت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا مسلم قوم معصوم ہے، تعلیمی پسماندگی کا شکار ہے۔ کسی کو بھی مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنا آسان ہوچکا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یا تو مذہبی رہنما یا پھر سیاسی لیڈران مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے ہوئے آرہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈی جے ہلی جیسے واقعات پیش آرہے ہیں۔ اسطرح کی مصیبت، نقصان اور بدنامی کیلئے بڑی حد تک خود مسلمان ذمہ دار ہیں۔کرناٹک مسلم متحدہ محاذ نے بھی 11 اگست کو پیش آئے تشدد کے معاملے میں UAPA کے تحت ہوئی گرفتاریوں اور NIA سے کروائی جارہی تحقیقات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ محاذ کے کنوینر مسعود عبدالقادر نے کہا کہ اس معاملے میں 4 نوجوانوں کی موت اور تقریبا 400 افراد کی گرفتاریاں ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قصور واروں کے خلاف ضرور کارروائی کی جائے لیکن بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کرتے ہوئے معصوم نوجوانوں کے پکڑ دھکڑ کی بات سامنے آرہی ہے، جو اقلیتی طبقہ کیلئے تشویش کا سبب ہے۔ مسعود عبدالقادر نے کہا کہ کئی نوجوانوں کے خلاف UAPA کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ میڈیا کی کئی رپورٹس یہ کہہ رہی ہیں کہ سیاسی مفادات کیلئے یہ تشدد کروایا گیا ہے، کسی کے سیاسی فائدہ کیلئے نوجوانوں کا استعمال کیا گیا۔ مسعود عبدالقادر نے کہا کہ اس تشدد کی آڑ میں ملزمین کے خلاف سخت دفعات نافذ کرنا مناسب نہیں ہے۔ کرناٹک مسلم متحدہ محاذ نے سیاسی لیڈروں سے اپیل کی ہے کہ وہ آگے آئیں۔ اپنی سیاست کو بالاء طاق رکھیں اور فوری طور پر گرفتار کئے گئے معصومین کی رہائی کیلئے اقدامات کریں۔ کیونکہ گرفتار شدگان کے گھروں کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ متاثرہ خاندان کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔آل انڈیا ملی کونسل، کرناٹک کے نائب صدر مولانا محمد نوشاد عالم قاسمی نے کہا کہ اس بات سے ہر کوئی واقف ہے کہ پلکیشی نگر اسمبلی حلقہ کی سیاست، اس تشدد کی ایک اہم وجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں ایک مذہبی مسئلہ کو سیاسی رنگ دے دیا گیا ہے۔ اب اس معاملے کو ایک معمہ بنا کر کئی معصوم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ مولانا محمد نوشاد عالم نے کہا کہ اس معاملے کی شفاف اور صحیح طریقے سے جانچ ہونی چاہئے۔
    Published by:Sana Naeem
    First published: