ہندوستان بھرمیں مشترکہ نصاب کی درخواست، ہائی کورٹ نے دہلی حکومت اور CBSE سے طلب کیاجواب
دہلی ہائی کورٹ
عدالت نے اس معاملے کی اگلی سماعت 16 اگست کو کی ہے۔ اپادھیائے نے پہلے عدالت کے سامنے دلیل دی تھی کہ تمام مسابقتی امتحانات چاہے وہ انجینئرنگ، قانون ہوں اور کامن یونیورسٹی کے داخلہ ٹیسٹ (CUET) کا ایک مشترکہ نصاب ہونا چاہیے۔
دہلی ہائی کورٹ (Delhi High Court) نے منگل کے روز دہلی حکومت، سی بی ایس ای اور این ایچ آر سی سے ایک عرضی پر جواب طلب کیا جس میں قانون حق تعلیم ایکٹ 2009 کی بعض دفعات کو من مانی، غیر معقول اور خلاف ورزی کے خلاف چیلنج کیا گیا ہے اور مرکز کو عام لاگو کرنے کی ہدایت مانگی گئی ہے۔ اس میں ملک بھر میں پہلی سے آٹھویں جماعت کے طلبہ کے لیے نصاب میں نئے تبدیلیوں کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
درخواست میں آر ٹی ای ایکٹ کے تحت ان دفعات کو بھی چیلنج کیا گیا ہے جس میں مدارس، ویدک پاٹھ شالوں اور مذہبی علم فراہم کرنے والے تعلیمی ادارے شامل نہیں ہیں۔ چیف جسٹس ستیش چندر شرما اور جسٹس سبرامونیم پرساد کی ڈویژن بنچ نے دہلی حکومت، سنٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) اور نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (این ایچ آر سی) کو نوٹس جاری کیا، جو نئی درخواست میں شامل ہیں۔ ہائی کورٹ نے قبل ازیں درخواست گزار وکیل اور بی جے پی لیڈر اشونی اپادھیائے کو سی بی ایس ای، نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) اور دہلی حکومت کو درخواست میں فریقین کے طور پر شامل کرنے کی اجازت دی تھی۔ منگل کے روز سماعت کے دوران بنچ نے نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس، این سی ای آر ٹی، اور کونسل فار انڈین اسکول سرٹیفکیٹ امتحانات کو بھی نوٹس جاری کیا اور فریقین سے اپنے جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔
عدالت نے اس معاملے کی اگلی سماعت 16 اگست کو طئے کی ہے۔ اپادھیائے نے پہلے عدالت کے سامنے دلیل دی تھی کہ تمام مسابقتی امتحانات چاہے وہ انجینئرنگ یا قانون ہوں، ان سب کے لیے کامن یونیورسٹی کے داخلہ ٹیسٹ (CUET) کا ایک مشترکہ نصاب ہے لیکن ہمارے پاس اسکول کی سطح پر ایک سے زیادہ نصاب ہیں، یہ طلبہ کو مساوی مواقع کیسے فراہم کرے گا؟ ملک بھر کے کیندر ودیالیوں میں ہمارا ایک مشترکہ نصاب ہے۔ ہر ترقی یافتہ ملک کے اسکولوں میں ایک مشترکہ نصاب ہوتا ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم کوچنگ مافیا کے دباؤ میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے دفعات کے مطابق طلبہ کو مساوی مواقع نہیں ملتے۔ اپادھیائے نے اپنی عرضی میں الزام لگایا کہ ’’تعلیمی مافیا بہت طاقتور ہیں اور ان کا بہت مضبوط جال ہے۔ وہ قواعد، ضوابط، پالیسیوں اور امتحانات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ اسکول مافیا ایک ملک ایک تعلیمی بورڈ نہیں چاہتے، کوچنگ مافیا ایک ملک ایک نصاب نہیں چاہتے اور بک مافیا تمام اسکولوں میں این سی ای آر ٹی کی کتابیں نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ بارہویں جماعت تک یکساں تعلیمی نظام ابھی تک نافذ نہیں ہو سکا ہے۔
اس مںی بتایا گیا ہے کہ یہ بتانا ضروری ہے کہ دفعہ 38، 39، 46 کے ساتھ دفعہ 14، 15، 16، 21، 21A کی بامقصد اور ہم آہنگ تعمیر اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے اور ریاست اس اہم ترین حق کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کر سکتی۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک بچے کا حق صرف مفت تعلیم تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ بچے کے سماجی، معاشی اور ثقافتی پس منظر کی بنیاد پر امتیاز کے بغیر یکساں معیار کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسے بڑھایا جانا چاہیے۔
Published by:Mohammad Rahman Pasha
First published:
سب سے پہلے پڑھیں نیوز18اردوپر اردو خبریں، اردو میں بریکینگ نیوز ۔ آج کی تازہ خبر، لائیو نیوز اپ ڈیٹ، پڑھیں سب سے بھروسہ مند اردو نیوز،نیوز18 اردو ڈاٹ کام پر ، جانیئے اپنی ریاست ملک وبیرون ملک اور بالخصوص مشرقی وسطیٰ ،انٹرٹینمنٹ، اسپورٹس، بزنس، ہیلتھ، تعلیم وروزگار سے متعلق تمام تفصیلات۔ نیوز18 اردو کو ٹویٹر ، فیس بک ، انسٹاگرام ،یو ٹیوب ، ڈیلی ہنٹ ، شیئر چاٹ اور کوایپ پر فالو کریں ۔