اپنا ضلع منتخب کریں۔

    Hijab Row: مسلم تنظیموں نے 17 مارچ کو کرناٹک بند کی دی کال، ایک روزہ پرامن بند کا ہوگا اہتمام

    ’’کرناٹک میں ایک دن کے مکمل پرامن بند کا اعلان حجاب کے سلسلہ میں ہائی کورٹ کے حالیہ افسوسناک فیصلہ پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوۓ ہم تمام علماء تنظیمیں ، ملی فلاحی ادارے، خواتین تنظمیں ، ذمہ داران مساجد وعما ئدین ملت اور وکلاء کل بروز جمعرات بتاريخ 17/03/2022 پوری ریاست کرناٹک میں مکمل ایک دن کے پرامن بند کا اعلان کرتے ہیں۔‘‘

    ’’کرناٹک میں ایک دن کے مکمل پرامن بند کا اعلان حجاب کے سلسلہ میں ہائی کورٹ کے حالیہ افسوسناک فیصلہ پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوۓ ہم تمام علماء تنظیمیں ، ملی فلاحی ادارے، خواتین تنظمیں ، ذمہ داران مساجد وعما ئدین ملت اور وکلاء کل بروز جمعرات بتاريخ 17/03/2022 پوری ریاست کرناٹک میں مکمل ایک دن کے پرامن بند کا اعلان کرتے ہیں۔‘‘

    ’’کرناٹک میں ایک دن کے مکمل پرامن بند کا اعلان حجاب کے سلسلہ میں ہائی کورٹ کے حالیہ افسوسناک فیصلہ پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوۓ ہم تمام علماء تنظیمیں ، ملی فلاحی ادارے، خواتین تنظمیں ، ذمہ داران مساجد وعما ئدین ملت اور وکلاء کل بروز جمعرات بتاريخ 17/03/2022 پوری ریاست کرناٹک میں مکمل ایک دن کے پرامن بند کا اعلان کرتے ہیں۔‘‘

    • Share this:
      حجاب تنازعہ (Hijab controversy): کرناٹک ہائی کورٹ (Karnataka High Court) کے حجاب کے فیصلے کے بعد کئی ریاستی مسلم تنظیموں نے 17 مارچ بروز جمعرات 2022 کو کرناٹک بند کی کال دی ہے۔ جس میں پیش پیش امارت شریعہ کرناٹک ہے۔ امارت شریعہ کرناٹک کو کرناٹک میں تمام مسلم تنظیموں کا سربراہ مانا جاتا ہے۔

      امارت شریعہ کرناٹک کی طرف سے جاری ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ریاست کرناٹک میں ایک دن کے مکمل پرامن بند کا اعلان حجاب کے سلسلہ میں ہائی کورٹ کے حالیہ افسوسناک فیصلہ پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوۓ ہم تمام علماء تنظیمیں ، ملی فلاحی ادارے، خواتین تنظمیں ، ذمہ داران مساجد وعما ئدین ملت اور وکلاء کل بروز جمعرات بتاريخ 17/03/2022 پوری ریاست کرناٹک میں مکمل ایک دن کے پرامن بند کا اعلان کرتے ہیں-

      پریس ریلیز
      پریس ریلیز


       

      اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جملہ مسلمان ملازمین ، تاجر ، مزدور طلبہ و طالبات اور ہر ایک طبقہ اس بند میں شریک ہوکر اس کو کامیاب بنائیں اور اس بند کے ذریعے حکومت کو باور کراۓ کہ ہمارے اس ملک میں مذہب پر عمل کرتے ہوئے تعلیم حاصل کر ناممکن ہے ۔انصاف پسند برادران وطن سے بھی اس بند میں شامل ہونے کی گزارش ہے۔

      مزید پڑھیں: Karnataka Hijab Row: حجاب پر ارشد مدنی کا ردعمل، بتایا فیصلہ اسلامی تعلیمات اور شرعی حکم کے مطابق نہیں

      ملت اسلامیہ از خود اپنے طور پر بند کا اہتمام کرے ، نوجوانوں سے گزارش ہے کہ زبردستی دکانیں اور کاروبار بند کرانے یا نعرہ بازی اور جلوس وغیرہ سے مکمل اجتناب کریں۔ یہ بند نہایت پرامن ، خاموش اور صرف اپنی ناراضگی کے اظہار کے لئے ہوگا۔

      اس میں من جانب لکھ کر ان تنظیموں کا ذکر شامل ہیں: امارت شرعیہ کرناٹک ، جمعیۃ العلماء کرناٹک، جماعت اسلامی ہند، جمعیت اہل حدیث ، جماعت اہل سنت کر ناتک، جامعہ حضرت بلال اہل سنت والجماعت ، انجمن امامیہ، کرنانکا مسلم متحدہ محاذ، پاپولر فرنٹ آف انڈیا،آل انڈیا ملی کونسل ، اڈوپی ضلع مسلم وکوٹا، گریس اسلامک آرگنائزیشن آف کرنا ٹکا، فارورڈ ٹرسٹ ۔

      وہیں صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی Syed Arshad Madni نے کرناٹک ہائی کورٹ کے حجاب karnataka hijab controversy کے سلسلہ میں دئے گئے فیصلہ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کورٹ کا فیصلہ حجاب کے سلسلہ میں اسلامی تعلیمات اور شرعی حکم کے مطابق نہیں ہے، جو احکام فرض یا واجب ہوتے ہیں وہ ضروری ہوتے ہیں، ان کی خلاف ورزی کرنا گناہ ہے۔ اس لحاظ سے حجاب ایک ضروری حکم ہے۔ اگر کوئی اس پر عمل نہ کرے تو اسلام سے خارج نہیں ہوتاہے لیکن وہ گنہگار ہوکر اللہ کے عذاب اور جہنم کا مستحق ہوتا ہے ضرور ہوتا ہے۔ اس وجہ سے یہ کہنا پردہ اسلام کا لازمی جزنہیں ہے شرعاغلط ہے، یہ لوگ ضروری کامطلب یہ سمجھ رہے ہیں کہ جو آدمی اس کا حکم نہیں مانے گا، وہ اسلام سے خارج ہوجائے گا، حالانکہ ایسانہیں ہے۔ اگر واجب اورفرض ہے تو ضروری ہے اس کے نہ کرنے پر کل قیامت کے دن اللہ کے عذاب کا مستحق ہوگا۔

      مزید پڑھیں: Hijab Row: حجاب معاملہ پر سپریم کورٹ کا فوری سماعت سے انکار، ہولی کے بعد ہوگی سماعت


      مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ مسلمان اپنی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے نماز نہیں پڑھتے، روزہ نہیں رکھتے تواس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نماز اور روزہ لازم اور ضروری نہیں ہے مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ یونیفارم مقرر کرنے کا حق اسکولوں کی حدتک محدود ہے جو معاملہ ہائی کورٹ میں زیرسماعت تھا وہ اسکول کا نہیں کالج کا تھا۔ اس لئے ضابطہ کے مطابق کالج کو اپنی طرف سے یونیفارم نافذ کرنے کا حق نہیں ہے رہا دستوری مسئلہ تو اقلیتوں کے حقوق کے لئے دستورکے آرٹیکل 25اور اس کی ذیلی شقوں کے تحت جو اختیارات حاصل ہیں، وہ دستورمیں اس بات کی ضمانت دیتاہے کہ ملک کے ہر شہری کو مذہب کے مطابق عقیدہ رکھنے، مذہبی قوانین پر عمل کرنے اور عبادت کی مکمل آزادی ہے۔
      Published by:Mohammad Rahman Pasha
      First published: