اپنا ضلع منتخب کریں۔

    میرٹھ: جیل میں مذہب تبدیل کرنے کا معاملہ، اسلام قبول کرنے والے تارا چند نے دیا بڑا بیان

    اترپردیش کے میرٹھ ضلع جیل میں تارا چند نام کے ایک قیدی کے مذہب تبدیل کرنے کا معاملہ سامنے آنے کے بعد ہندو تنظیموں نے تھانے پر ہنگامہ کیا اور جیل میں مذہب تبدیلی معاملے کی جانچ کرکے کارروائی کا دباؤ بنایا ہے۔

    اترپردیش کے میرٹھ ضلع جیل میں تارا چند نام کے ایک قیدی کے مذہب تبدیل کرنے کا معاملہ سامنے آنے کے بعد ہندو تنظیموں نے تھانے پر ہنگامہ کیا اور جیل میں مذہب تبدیلی معاملے کی جانچ کرکے کارروائی کا دباؤ بنایا ہے۔

    اترپردیش کے میرٹھ ضلع جیل میں تارا چند نام کے ایک قیدی کے مذہب تبدیل کرنے کا معاملہ سامنے آنے کے بعد ہندو تنظیموں نے تھانے پر ہنگامہ کیا اور جیل میں مذہب تبدیلی معاملے کی جانچ کرکے کارروائی کا دباؤ بنایا ہے۔

    • Share this:
    میرٹھ: اترپردیش کے میرٹھ ضلع جیل میں تارا چند نام کے ایک قیدی کے مذہب تبدیل کرنے کا معاملہ سامنے آنے کے بعد ہندو تنظیموں نے تھانے پر ہنگامہ کیا اور جیل میں مذہب تبدیلی معاملے کی جانچ کرکے کارروائی کا دباؤ بنایا ہے۔ اپنی بیوی کے عاشق کے قتل معاملے میں گزشتہ تین سال سے زیادہ وقت سے میرٹھ ضلع جیل میں بند قیدی تارا چند پرگاؤں والوں اور ہندو تنظیم سے وابستہ لوگوں کا الزام ہے کہ جیل میں تارا چند کا مذہب تبدیل کروایا گیا ہے اور اب پیرول پر رہا ہونے کے بعد تارا چند گاؤں کے لوگوں کو بھی بہکا رہا ہے۔

    وہیں تارا چند کا کہنا ہے کہ اُس نے کسی دباؤ میں آکر اسلام قبول نہیں کیا اور اپنی مرضی سے نماز پڑھنا اور داڑھی رکھنا شروع کیا ہے، لیکن گاؤں کے کچھ لوگوں اور ہندو تنظیم سے جڑے لوگوں نے اسے موضوع بناکر ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔ تارا چند کا کہنا ہے کہ ہندو مذہبی تنظیم سے منسلک لوگوں کے ہنگامہ کرنے کے بعد پولیس کی موجودگی میں اُس کے داڑھی کٹوائی گئی اور دھمکایا گیا۔

     وہیں تارا چند کا کہنا ہے کہ اُس نے کسی دباؤ میں آکر اسلام قبول نہیں کیا اور اپنی مرضی سے نماز پڑھنا اور داڑھی رکھنا شروع کیا ہے، لیکن گاؤں کے کچھ لوگوں اور ہندو تنظیم سے جڑے لوگوں نے اسے موضوع بناکر ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔

    وہیں تارا چند کا کہنا ہے کہ اُس نے کسی دباؤ میں آکر اسلام قبول نہیں کیا اور اپنی مرضی سے نماز پڑھنا اور داڑھی رکھنا شروع کیا ہے، لیکن گاؤں کے کچھ لوگوں اور ہندو تنظیم سے جڑے لوگوں نے اسے موضوع بناکر ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔


    ہندو تنظیم سے وابستہ لوگوں کا الزام ہے کہ مغربی یوپی میں مذہب تبدیلی کے معاملے تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور اس کام کو انجام دینے والا گینگ (گروہ) سرگرم ہے، جس کی مکمّل جانچ کرکے کارروائی کی جانی چاہئے۔ وہیں اس پورے معاملے میں پولیس افسران کچھ کہنے کو تیار نہیں ہیں، لیکن گاؤں والوں اور مذہبی تنظیموں کے دباؤ میں کارروائی انجام دے رہے ہیں جبکہ تارا چند کو مل رہی دھمکیوں پر پولیس کسی طرح کی کارروائی کرنے سے قاصر ہے۔
    Published by:Nisar Ahmad
    First published: