اپنا ضلع منتخب کریں۔

    حیدرآباد کے نظام دور کا اختتام! آج سپرد خاک کیے جائیں گے مکرم جاہ

    حیدرآباد کے نظام دور کا اختتام! آج سپرد خاک کیے جائیں گے مکرم جاہ۔تصویر بشکریہ ٹوئٹر: @aun_mehdi

    حیدرآباد کے نظام دور کا اختتام! آج سپرد خاک کیے جائیں گے مکرم جاہ۔تصویر بشکریہ ٹوئٹر: @aun_mehdi

    مکرم جاہ کی 1933 میں فرانس میں پیدائش ہوئی۔ ان کی والدہ پرنسس دُر شہوار ترکی (سلطنت عثمانیہ) کے آخری سلطان عبدالمجید دوم کی دختر تھیں۔

    • News18 Urdu
    • Last Updated :
    • Hyderabad, India
    • Share this:
      بے حساب زمین و جائیداد ، ہیرے جواہرات کے مالک حیدرآباد کے آخری نظام میر عثمان علی خان کے پوتے نواب میر برکت علی خان مکرم جاہ بہادر کو آج سپرد خاک کیا جائے گا۔ اسی کے ساتھ ان کی زندگی اور وراثت میں ملی اربوں کی دولت کے کئی اَن سُلجھے سوال بھی دفن ہوجائیں گے۔ مکرم جاہ کا ہفتہ کو ترکی کے شہر استنبول میں انتقال ہوگیا تھا جہاں وہ کئی سال سے مقیم تھے۔ مکرم جاہ کو ان کے دادا اور ریاست حیدرآباد دکن کے ساتویں نظام میر عثمان علی خان نے 1954 میں اپنا جانشین قرار دیا تھا، اور تبھی سے انہیں حیدرآباد کا آٹھواں اور آخری نظام کہا جاتا ہے۔

      مکرم جاہ کی 1933 میں فرانس میں پیدائش ہوئی۔ ان کی والدہ پرنسس دُر شہوار ترکی (سلطنت عثمانیہ) کے آخری سلطان عبدالمجید دوم کی دختر تھیں۔ 1971 تک رسمی طور سے پرنس مکرم جاہ کو حیدرآباد کا شہزادہ کہا جاتا تھا جب تک کہ حکومت نے ان عہدوں کو ختم نہیں کردیا تھا۔ نظام میر عثمان علی خان نے اپنے پہلے بیٹے پرنس اعظم جاہ بہادر کے بجائے اپنے پوتے کو اپنا جانشین بنایا تھا۔ جانشین بننے کے بعد 1967 میں حیدرآباد کے آخری حکمراں کے انتقال پر مکرم جاہ آٹھویں نظام بنے۔ وہ شروعات میں آسٹریلیا چلے گئے تھے لیکن بعد میں ترکی میں رہنے لگے۔


      یہ بھی پڑھیں:





      یہ بھی پڑھیں:




      مکرم جاہ کے دادا میر عثمان علی خان ایک زمانے میں دنیا کے سب سے امیر ترین شخص تھے۔ مکرم جاہ کے بارے میں ’دی لاسٹ نظام: دی رائز اینڈ فال آف انڈیاز گریٹیسٹ پرنسلی اسٹیٹ‘ کتاب کے مصنف جان جوبریسکی نے لکھا ہے’ سالوں تک میں نے ایک مسلم صوبے کے مختلف حکمرانوں کی کہانیاں پڑھیں ہیں جن کے پاس کلو کے حساب سے ہیرے، ایکڑ میں موتی جب کہ ٹن میں سونے کی چھڑیں تھیں لیکن پھر بھی وہ اتنا کنجوس تھا کہ وہ کپڑے دھونے کے خرچ کو بچانے کے لیے کپڑے پہن کر نہاتا تھا۔‘

      Published by:Shaik Khaleel Farhaad
      First published: