اپنا ضلع منتخب کریں۔

    پلیسس آف ورشپ 1991 ایکٹ کے سلسلے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ پہنچا Supreme Court

     Places of Worship 1991 Ac: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے عبادت گاہوں کو لے کر بنائے گئے گئے  (خصوصی دفعات) پلیسیس آف ورشپ ایکٹ 1991 کو چیلنج کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف انڈیا سے رجوع کیا ہے۔

    Places of Worship 1991 Ac: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے عبادت گاہوں کو لے کر بنائے گئے گئے  (خصوصی دفعات) پلیسیس آف ورشپ ایکٹ 1991 کو چیلنج کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف انڈیا سے رجوع کیا ہے۔

    Places of Worship 1991 Ac: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے عبادت گاہوں کو لے کر بنائے گئے گئے  (خصوصی دفعات) پلیسیس آف ورشپ ایکٹ 1991 کو چیلنج کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف انڈیا سے رجوع کیا ہے۔

    • Share this:
    نئی دہلی: 2022 آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے عبادت گاہوں کو لے کر بنائے گئے گئے  (خصوصی دفعات) پلیسیس آف ورشپ ایکٹ 1991 کو چیلنج کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف انڈیا سے رجوع کیا ہے۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ایک پریس بیان میں کہا، "بورڈ نے عبادت گاہوں (خصوصی دفعات) ایکٹ، 1991 کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی دو مفاد عامہ کی عرضیوں (PIL) میں کے سلسلہ میں مداخلت کار  کی حیثیت سے عرضی دائر  کی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے داخل کی گئی عرضیوں میں کہا گیا ہے  ایکٹ کو چیلنج کرنے کی  حیثیت والی پٹیشنز ایک ایسے قانون کے خلاف داخل کی گئی ہیں جس کے بارے میں سپریم کورٹ پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ مذکورہ قانون "تمام مذاہب کو لے کر مساوات کے لیے ہندوستان کا عہد ہے" اور مزید کہا گیا کہ یہ ایکٹ "  اس پختہ فرض کا اثبات ہے جو ریاست پر تمام عقائد کی مساوات کو ایک لازمی آئینی قدر کے طور پر برقرار رکھنے اور تحفظ فراہم کرنے کے لیے ڈالا گیا تھا، ایک ایسا معیار جس کو آئین کی بنیادی خصوصیت کی حیثیت حاصل ہے۔"

    درخواستوں میں بتایا گیا ہے کہ 1991 کے ایکٹ کے تحت قانون سازی کی نوعیت اور سپریم کورٹ کی طرف سے ایکٹ کی توثیق کو آئین کے بنیادی خدوخال کی عکاسی کے طور پر دیکھتے ہوئے، موجودہ مفاد عامہ کی  درخواستوں کو سماعت کرنے سے صرف مسائل پیدا ہوں گے۔  ان مدعیان کے بنیادی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی کے دعووں کو حل کرنے کے لئے سپریم کورٹ سماعت نہ کرے کیونکہ مفاد عامہ کی عرضیوں کا مقصد سیاسی  ایجنڈا  ہے۔  اس طرح کے تنازعات مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو پولرائز کر کے معاشرے کے سماجی تانے بانے کو بگاڑتے ہیں، خاص طور پر جب ہمارے ملک نے بابری مسجد کے تنازعہ کے بعد خونریزی دیکھی ہے۔

    ٹوٹ گئی مذہب کی دیوار: اعظم گڑھ میں مسلم لڑکی نے بدلا مذہب، ہندو بن کر لڑکے سے رچائی شادی


    نئی دہلی میںjammu and kashmir کے  سینیئر کانگریس لیڈروں کی میٹنگ منقعد

     

    درخواستوں میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ 1991 کے ایکٹ کا مقصد  عبادت گاہوں سے متعلق مبینہ دعووں کو ختم کرنا ہے۔  اس بات پر مزید زور دیا گیا ہے کہ مختلف برادریوں کے درمیان عبادت گاہ سے متعلق کوئی بھی تنازعہ انتہائی حساس ہے اور امن عامہ کو درہم برہم کرنے اور معاشرے کے امن و سکون کو درہم برہم کرنے کا خطرہ ہے۔ غور طلب ہے کہ انیس سو اکیانوے میں عبادت گاہوں کو لے کر سابق وزیراعظم نر سمہا راؤ سرکار میں ایک خصوصی قانون پارلیمنٹ سے پاس کیا تھا جس کے تحت 15 اگست 1947 کو جس عبادت گاہ کی جو حیثیت تھی اس میں تبدیلی بھی نہیں کی جاسکے گی
    Published by:Sana Naeem
    First published: