اپنا ضلع منتخب کریں۔

    ملنگ قلندروں نے کرتب دکھائے، حیرت انگیز کارنامے دیکھنے والوں کا نظر آیا ہجوم

    ملنگ دہلی کے مہرولی سے پیدل اجمیر پہنچ گئے  ۔ درگاہ کے نظام گیٹ پر فیریا پرچم، محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیا قافلے میں تمام مذاہب کے مست ملنگ موجود تھے۔

    ملنگ دہلی کے مہرولی سے پیدل اجمیر پہنچ گئے  ۔ درگاہ کے نظام گیٹ پر فیریا پرچم، محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیا قافلے میں تمام مذاہب کے مست ملنگ موجود تھے۔

    ملنگ دہلی کے مہرولی سے پیدل اجمیر پہنچ گئے  ۔ درگاہ کے نظام گیٹ پر فیریا پرچم، محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیا قافلے میں تمام مذاہب کے مست ملنگ موجود تھے۔

    • News18 Urdu
    • Last Updated :
    • Rajasthan, India
    • Share this:
    حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی کے 811 ویں عرس کے لیے 18 جنوری کو پرچم کشائی کی گئی ہے۔  اور دنیا بھر سے زائرین کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔  خواجگان کے اس میلے میں جہاں امیر لوگ درگاہ پر حاضری دینے پہنچتے ہیں وہیں غریب اور نادار لوگ بھی اس میلے میں شرکت کرتے ہیں۔
    خواجہ کے اس میلے میں مست ملنگوں اور قلندروں کا بھی اہم کردار ہے۔  ان ملنگوں کا کسی مذہب سے تعلق نہیں، ان ملنگوں کا کام ہے کہ جہاں بھی بزرگوں کا عرس ہوتا ہے، وہیں اپنا ڈھیر لگا دیتے ہیں۔  یہ ملنگ اور قلندر ہر جگہ جا کر لوگوں کو انسانیت اور بھائی چارے کا پیغام دیتے ہیں۔  ملنگوں کا یہ گروہ دہلی کے مہرولی شریف سے پیدل اجمیر پہنچتا ہے۔  یہاں پہنچنے پر درگاہ کمیٹی اور انجمن کمیٹی ان کا استقبال کرتی ہے اور ان کے قیام و طعام کا انتظام کرتی ہے۔
    ملنگوں کا یہ گروپ چلہ قطب صاحب سے جلوس کی شکل میں روانہ ہوا۔  اور راستے میں حیرت انگیز  کرتب دکھاتے ہوئے "حق معین، یا معین" کے نعرے لگاتے ہوئے درگاہ غریب نواز پہنچے جہاں نظام گیٹ پر ان کا  استقبال کیا گیا۔  اس کے بعد ملنگوں نے نظام گیٹ پر پرچم لہرایا اور  مزارے خواجہ  پر چکر لگایا اور درگاہ کے مختلف مقامات پر قیام کیا۔

    ملنگوں سے بات کرنے پر ان کا کہنا تھا کہ ہم انسانیت کا پیغام دیتے ہوئے جگہ جگہ جاتے ہیں اور پیدل چلتے ہوئے ہمارے پاؤں پر چھالے پڑ جاتے ہیں، اتنی تکلیفیں اٹھاتے ہیں تاکہ انسانیت کا بول بالا ہو اور سب لوگ اتفاق سے ساتھ رہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ ملنگ اپنی بھوک پیاس مار کر پوری دنیا میں انسانیت کا جو پیغام دے رہا ہے وہ کس حد تک رنگ لاتا ہے۔
    Published by:Sana Naeem
    First published: