ذات پات کی مردم شماری پر آگے کیا ہوگا، آج طئے کرے گا سپریم کورٹ

ذات پات کی مردم شماری پر آگے کیا ہوگا، آج طئے کرے گا سپریم کورٹ

ذات پات کی مردم شماری پر آگے کیا ہوگا، آج طئے کرے گا سپریم کورٹ

پٹنہ ہائی کورٹ میں اس کیس سے جڑے وکیلوں کا دعویٰ ہے کہ ابھی یہیں کئی مدعوں پر دلائل باقی ہیں۔

  • News18 Urdu
  • Last Updated :
  • Patna, India
  • Share this:
    بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری ہورہی تھی یا ہر شخص کی ذات جاننے کے لیے سروے کیا جا رہا تھا، سپریم کورٹ کو یہ طئے کرنا ہے۔ پٹنہ ہائی کورٹ نے 04 مئی کو ایک عبوری فیصلے میں بہار حکومت کی اس دلیل کو مسترد کر دیا تھا کہ یہ ذات پر مبنی گنتی ہے۔ پٹنہ ہائی کورٹ نے 03 جولائی کو اگلی تاریخ دیتے ہوئے بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری پر عبوری پابندی عائد کردی تھی تو حکومت نے جلد تاریخ دینے کی اپیل کی۔ وہ اپیل بھی بے کار گئی تو ہائی کورٹ کے عبوری فیصلے میں حتمی فیصلے کی علامت مانتے ہوئے بہار حکومت نے سپریم کورٹ کا رُخ کیا۔ بدھ کو سپریم کورٹ میں اس کی سماعت ہوگی۔

    سپریم کورٹ سے دو بار لوٹ گیا ہے یہ کیس

    سپریم کورٹ کے پاس تیسری مرتبہ یہ کیس پہنچ رہا ہے۔ ہپلے، دو مرتبہ بہار میں ذات پات پر مبنی مردم شماری کو غیر آئینی قرار دینے کے لیے درخواست گزاروں نے اپیل کی تھی۔ دونوں ہی مرتبہ سپریم کورٹ نے اسے ہائی کورٹ کا مسئلہ قرار دیا۔ دونوں مرتبہ بہار حکومت کو راحت ملی، لیکن جب پٹنہ ہائی کورٹ نے ریاست کی نتیش کمار حکومت کے فیصلے کے خلاف عبوری فیصلہ سناتے ہوئے جولائی کی تاریخ دے دی تو اب تیسری مرتبہ یہ کیس حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں پہنچا ہے۔ بدھ کو چھ نمبر کورٹ میں 47ویں نمبر پر اس کی سماعت ہوگی۔

    یہ بھی پڑھیں:

    'ڈر کا ماحول مت بنائیں'- سپریم کورٹ نے ای ڈی کو دی ہدایت، چھتیس گڑھ حکومت سے جڑا ہے معاملہ

    یہ بھی پڑھیں:

    راہل گاندھی کو ملے گی راحت یا بڑھے گی مشکل؟ وزیر داخلہ امت شاہ سے جڑا ہے معاملہ، عدالت نے محفوظ کیا فیصلہ

    ہائی کورٹ میں ابھی کئی مسئلوں پر باتیں ہیں باقی

    ریاستی حکومت بھلے ہی عبوری فیصلے کو ہی آخری سمجھتے ہوئے سپریم کورٹ میں اسے منسوخ کرانے کے لیے پہنچ گئی ہے، لیکن پٹنہ ہائی کورٹ میں اس کیس سے جڑے وکیلوں کا دعویٰ ہے کہ ابھی یہیں کئی مدعوں پر دلائل باقی ہیں۔ ابھی صرف اس کی غیر آئینی، ڈیٹا کی حفاظت اور سپریم کورٹ کی توہین جیسے مدعوں پر بحث ہوئی۔
    Published by:Shaik Khaleel Farhaad
    First published: