نیم فوجی دستوں کو کیوں الوداع کہہ رہے جوان، کیا وزارت داخلہ اب نوکری چھوڑنے والوں کا لےگا انٹرویو؟

نیم فوجی دستوں کو کیوں الوداع کہہ رہے جوان، کیا وزارت داخلہ اب نوکری چھوڑنے والوں کا لےگا انٹرویو؟

نیم فوجی دستوں کو کیوں الوداع کہہ رہے جوان، کیا وزارت داخلہ اب نوکری چھوڑنے والوں کا لےگا انٹرویو؟

جب تک باقاعدہ بھرتیاں نہیں ہوتیں، ان آسامیوں کو ایڈہاک کے ذریعے پر کرنے کے امکانات تلاش کیے جائیں۔

  • News18 Urdu
  • Last Updated :
  • New Delhi, India
  • Share this:
    جوان اور کیڈر کے افسران مرکزی نیم فوجی دستوں سے کیوں مایوس ہو رہے ہیں؟ وہ بیچ میں نوکری چھوڑ رہے ہیں۔ اگر ہم گزشتہ پانچ سالوں کی بات کریں تو 50,155 اہلکاروں نے سی آر پی ایف، بی ایس ایف، آئی ٹی بی پی، ایس ایس بی، سی آئی ایس ایف اور آسام رائفلز میں ملازمت کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ یہی نہیں ان فورسز میں خودکشی کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں۔

    داخلی امور کی پارلیمانی عبوری کمیٹی نے اس بات کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔ کمیٹی نے اپنی 24ویں رپورٹ میں صاف طور پرکہا ہے کہ جوانوں اور عہدیداروں کی جانب سے ملازمت چھوڑدینا، اس کا سیدھا اثر فورس کے حوصلے پر پڑتا ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ کو چاہیے کہ جو لوگ جاب چھوڑ کر جارہے ہیں، ان کا انٹرویو لے، سروے رپورٹ تیار کرے۔ اس کے ذریعے ان وجوہات کا پتہ چل پائے گا کہ جس کی وجہ سے جوان اور عہدیدار نوکری چھوڑ رہے ہیں۔ اس کے بعد سی اے پی ایف میں وہ بھی ضروری تبدیلی کی جائیں، جس سے جاب چھوڑنے والو کی تعداد کم ہونے لگے۔

    یہ بھی پڑھیں:


    • Coronavirus: دوسرے ملک سے آرہے لوگوں کو بغیر ٹیسٹ یوپی میں نہیں ملے گی انٹری! یوگی سرکار کا بڑا فیصلہ




    پارلیمانی عبوری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ سی اے پی ایف میں ورنگ کنڈیشن کو بہتر بنایا جائے۔ خالی عہدوں کو جلد از جلد بھرا جائے۔ سی اے پیایف میں پیرامیڈیکل اسٹاف کے لیے 4420 عہد قابل قبول ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:

    تمل ناڈو میں ایک مرتبہ پھر دکھائی دیا پی ایم کا الگ انداز، معذور کارکنوں کے ساتھ لی سیلفی، لوگوں نے کہا پکچر آف دی ڈے

    اس وقت 25.42 فیصد عہدے یعنی 1124 عہدے خالی پڑے ہیں، اس سے جوانوں کی صحت متاثر ہوتی ہے۔ ان پوسٹوں کو بلاتاخیر بھرا جائے۔ جب تک باقاعدہ بھرتیاں نہیں ہوتیں، ان آسامیوں کو ایڈہاک کے ذریعے پر کرنے کے امکانات تلاش کیے جائیں۔
    Published by:Shaik Khaleel Farhaad
    First published: