اپنا ضلع منتخب کریں۔

    نوجوان نسل شمس الرحمن فاروقی کے ادبی خزانہ سے استفادہ کرے، بنگلورو میں تعزیتی اجلاس منعقد

    نوجوان نسل شمس الرحمن فاروقی کے ادبی خزانہ سے استفادہ کرے، بنگلورو میں تعزیتی اجلاس منعقد

    نوجوان نسل شمس الرحمن فاروقی کے ادبی خزانہ سے استفادہ کرے، بنگلورو میں تعزیتی اجلاس منعقد

    گزشتہ سال انتقال کرجانے والے اردو کے مشہور شاعر، نقاد شمس الرحمن فاروقی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے بنگلورو میں تعزیتی جلسہ منعقد ہوا۔ الامین ڈگری کالج کے شعبہ اردو کے تحت منعقدہ تقریب میں شمس الرحمن فاروقی کو عہد ساز شخصیت قرار دیتے ہوئے ان کی ادبی، شعری، صحافتی اور تعلیمی خدمات پر روشنی ڈالی گئی۔

    • Share this:
    بنگلورو: گزشتہ سال انتقال کرجانے والے اردو کے مشہور شاعر، نقاد شمس الرحمن فاروقی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے بنگلورو میں تعزیتی جلسہ منعقد ہوا۔ الامین ڈگری کالج کے شعبہ اردو کے تحت منعقدہ تقریب میں شمس الرحمن فاروقی کو عہد ساز شخصیت قرار دیتے ہوئے ان کی ادبی، شعری، صحافتی اور تعلیمی خدمات پر روشنی ڈالی گئی۔ الامین ایجوکیشنل سوسائٹی کے سکریٹری سبحان شریف کی صدارت میں منعقدہ اس تقریب میں ڈاکٹر راہی فدائی اور دیگر نے خطاب کیا۔ نوجوانوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ وہ شمس الرحمن فاروقی کے ادبی خزانہ سے استفادہ کریں۔
    باقیات الصالحات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر راہی فدائی باقوی نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ آپ نے ادب کی ہر صنف پر کام کیا، اردو ادب کو عالمی ادب میں متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیا، اردو شاعری کا  انگریزی میں انگریزی شاعری کا اردو میں ترجمہ کیا۔
    ڈاکٹر راہی فدائی نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی فرانسیسی زبان سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔ آپ نے فرانسیسی شاعری کو اردو میں متعارف کروانے کی نمایاں کوشش کی۔ ان کا ناول ’کئی چاند تھے سر آسماں‘ کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔  انہوں نے اپنے اس ناول کا خود انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔ راہی فدائی نے کہا کہ اردو والوں کیلئے یہ فخرکی بات ہے کہ نوبل انعام کے پینل میں شمس الرحمن فاروقی کا ناول زیر غور تھا، راہی فدائی نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی کو گہرائی سے پڑھنے کی ضرورت ہے، مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر راہی فدائی باقوی نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی کے ادبی کارناموں کو دنیا صدیوں تک یاد رکھے گی۔
    مدراس یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سابق صدر ڈاکٹر سید سجاد حسین نے کہا کہ تنقید شمس الرحمن فاروقی کا خاص میدان تھا، جس میں انہوں نے ایسے ایسے کارنامے انجام دیئے کہ دنیا ششدر رہ گئی۔ سید سجاد حسین نے کہا کہ نوجوان نسل کیلئے یہ پیغام ہے کہ وہ مطالعہ کے شوق کو اپنے اندر پروان چڑھائیں۔ انہوں نےکہا کہ داستان امیر حمزہ جو 40 جلدوں پر مشتمل ہے، شمس الرحمن فاروقی نے گہرائی سے مطالعہ کیا اور اس کے بعد تحقیقی اور تنقیدی نتیجہ عوام کے سامنے پیش کیا جو پانچ جلدوں پر مشتمل ہے۔ لہٰذا شمس الرحمن فاروقی کی شخصیت سے یہ پیغام ملتا ہے کہ انسان اپنی تعمیر و ترقی کیلئے مطالعہ کا شوق رکھے۔

    فائل فوٹو
    فائل فوٹو


    روزنامہ سالار کے معروف کالم نگار پروفیسر محمد اعظم شاہد نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی اردو دنیا کا ایک معتبر نام ہے۔ انہوں نے نئے ادب کو بنانے، سنوارنے میں اپنی توانائی صرف کی تھی۔ ساتھ ہی کلاسیکی ادب کو نئی نسل سے روشناس کروانے کی کوشش کی۔ اس طرح شمس الرحمن فاروقی کلاسیکی ادب اور جدید ادب کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتے تھے۔ اردو ادب میں جدیدیت کو فروغ دینےکی نمایاں کوششیں کیں۔ انہوں نے 1966 میں رسالہ شب خون کا آغاز کیا، جو تقریباً 40 سال تک جاری رہا۔ اس رسالے کے 290 شمارے منظر عام پر آئے جو اپنے آپ میں ایک بڑا کارنامہ ہے۔ ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کئی اکیڈمیوں نے ایوارڈس سے نوازا،  ملک کے باوقار اعزاز پدم شری سے شمس الرحمن فاروقی کو نوازا گیا۔ سرسوتی سمان  جیسے کئی اہم ایوارڈس سے آپ کو تفویض کیا گیا۔
    اعظم شاہد نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی نے اردو کے دو بڑے کلاسیکی شعراء مرزا غالب اور میر کے ادب کا تجزیہ کیا اور اس کی تفہیم کو اردو دنیا کے سامنے پیش کیا، جس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ اتنا ہی نہیں شمس الرحمن فاروقی نے اردو میں داستان گوئی کی روایت کی از سر نو تجدید کاری کی۔ اردو دنیا کی یہ عظیم شخصیت 25 دسمبر 2020 کو ہم سے بچھڑگئی۔
    معروف شاعرہ شائستہ یوسف نے کہا کہ ان کے لئے یہ اعزاز کی بات تھی کہ سال 2009 میں شمس الرحمن فاروقی نے بنگلورو آمد پر ان کی کتاب  سونی پرچھائیاں کا رسم اجراء کیا۔ کرناٹک اردو اکیڈمی کے اس وقت کے چیئرمین خلیل مامون کی دعوت پر شمس الرحمن فاروقی بنگلورو آئے ہوئے تھے۔ "تنقید مغرب کے حوالے سے" اس موضوع پر انہوں نے خطاب کیا تھا۔
    تعزیتی اجلاس کے منتظم اقبال احمد بیگ نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی کو بنگلورو کے شعراء و ادبا سے کافی لگاؤ تھا۔ بنگلورو کے بزرگ ادیب راہی فدائی کے کتاب پر انہوں نے مقدمہ بھی لکھا تھا۔ اقبال احمد بیگ نے کہا کہ وہ اور بنگلورو کے چند احباب نے ان کے آبائی مقام کا دورہ کیا تھا، ان کے ساتھ کئی موضوعات پر گفتگو کی تھی۔ اقبال احمد بیگ نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی کے ساتھ گزرے لمحات آج بھی انہیں یاد ہیں۔ جب ان کے انتقال کی خبر ملی تو ایسا محسوس ہوا کہ ان کے ہی کے خاندان کا شخص دنیا سے رخصت ہوا ہے۔
    الامین ایجوکیشنل سوسائٹی کے سکریٹری ڈاکٹر سبحان شریف نے کہا کہ اردو کی ترقی، بقا اور فروغ ان کے تعلیمی اداروں کا ایک اہم مقصد ہے۔عالمی مشاعرہ سمیت اردو کی کئی تقریبات الامین کیمپس، بنگلورو میں منعقد ہوتی ہوئی آئی ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ڈاکٹر سبحان شریف نے کہا کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کی بڑی ادبی شخصیات میں شامل شمس الرحمن فاروقی پر الامین ایجوکیشنل سوسائٹی ایک روزہ قومی سمینار منعقد کرے گی۔ جلد ہی اس سمینارکی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔
    Published by:Nisar Ahmad
    First published: