اپنا ضلع منتخب کریں۔

     دھونی کی بڑھیں مشکلیں! سپریم کورٹ نے پیسے کے لین دین میں بھیجا نوٹس، جانیں پورا معاملہ

    Delhi High Court, Mahendra Singh Dhoni: سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران متاثرین کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ ایک طرف فنڈ کی کمی کی وجہ سے لوگوں کو فلیٹ نہیں مل پا رہا ہے۔ دوسری طرف دھونی نے 150 کروڑ روپئے کا مطالبہ کرتے ہوئے معاملہ ثالثی کمیٹی کے پاس لے گئے ہیں۔

    Delhi High Court, Mahendra Singh Dhoni: سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران متاثرین کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ ایک طرف فنڈ کی کمی کی وجہ سے لوگوں کو فلیٹ نہیں مل پا رہا ہے۔ دوسری طرف دھونی نے 150 کروڑ روپئے کا مطالبہ کرتے ہوئے معاملہ ثالثی کمیٹی کے پاس لے گئے ہیں۔

    Delhi High Court, Mahendra Singh Dhoni: سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران متاثرین کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ ایک طرف فنڈ کی کمی کی وجہ سے لوگوں کو فلیٹ نہیں مل پا رہا ہے۔ دوسری طرف دھونی نے 150 کروڑ روپئے کا مطالبہ کرتے ہوئے معاملہ ثالثی کمیٹی کے پاس لے گئے ہیں۔

    • Share this:
      نئی دہلی: امرپالی (Amrapali) اور مہندر سنگھ دھونی (MS Dhoni) کے درمیان چل رہے اس تنازعہ کو حل کرنے کے لئے دہلی ہائی کورٹ (Delhi High Court) کے ذریعہ تشکیل کی گئی ثالثی کمیٹی کی سماعت پر روک لگانے کا مطالبہ سے متعلق سپریم کورٹ (Supreme Court) نے کرکٹر ایم ایس دھونی اور امرپالی کو نوٹس جاری کیا۔

      دہلی ہائی کورٹ نے اس معاملے کو حل کرنے کے لئے دہلی ہائی کورٹ کی ایک ریٹائر جج جسٹس وینا ویرول کی صدارت میں ایک ثالثی کمیٹی کی تشکیل کی ہے۔

      یہ بھی پڑھیں۔

      بس، تھوڑا انتظار اور... آرہی ہے ‘راولپنڈی ایکسپریس‘، تاریخ کا بھی ہوا انکشاف، دیکھیں ویڈیو 

      دھونی نے امرپالی گروپ سے کی 150 کروڑ روپئے کا مطالبہ

      سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران متاثرین کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ ایک طرف فنڈ کی کمی کی وجہ سے لوگوں کو فلیٹ نہیں مل پا رہا ہے۔ دوسری طرف دھونی نے 150 کروڑ روپئے کا مطالبہ کرتے ہوئے معاملہ ثالثی کمیٹی کے پاس لے گئے ہیں۔


      اگر اس معاملے میں ثالثی کمیٹی دھونی کے حق میں حکم دے دیتی ہے تو امرپالی کو 150 کروڑ روپئے دینے پڑیں گے، جس سے فلیٹ خریداروں کو فلیٹ ملنا مشکل ہوجائے گا۔ اس دلیل کے بعد سپریم کورٹ نے کرکٹر دھونی کو نوٹس جاری کردیا۔ فی الحال عدالت نے ثالثی کمیٹی پر روک نہیں لگائی ہے۔
      Published by:Nisar Ahmad
      First published: