Super Baby: تاریخ میں پہلی مرتبہ تین لوگوں کے ڈی این اے سے پیدا ہوا انوکھا بچہ، نہیں ہوگی یہ بیماری

Super Baby: تاریخ میں پہلی مرتبہ تین لوگوں کے ڈی این اے سے پیدا ہوا انوکھا بچہ، نہیں ہوگی یہ بیماری ۔ علامتی تصویر ۔

Super Baby: تاریخ میں پہلی مرتبہ تین لوگوں کے ڈی این اے سے پیدا ہوا انوکھا بچہ، نہیں ہوگی یہ بیماری ۔ علامتی تصویر ۔

Super Baby: میڈیکل سائنس کے نظریہ سے یہ کرشمہ سے کم نہیں ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ بچہ انگلینڈ میں پیدا ہوا ہے ۔ بچے کی پیدائش جس تکنیک کی مدد سے ہوئی وہ مائیٹوکانڈریل بیماریوں کو روکنے کیلئے اپنائی جاتی ہے ۔

  • Share this:
    عرصہ سے تصور کیا جاتا رہا ہے کہ کیا ایسا بچہ پیدا ہوسکتا ہے ، جس کو کوئی جینیٹک بیماری نہ ہو؟ اب اس کا جواب مل گیا ہے ۔ دنیا میں پہلی مرتبہ ایک ایسے بچہ نے جنم لیا ہے، جس کو کوئی بھی جینیٹک بیماری نہیں ہوگی اور نہ ہی کوئی نقصان دہ جینیٹک میوٹیشن اس میں نظر آئے گا ۔ جو بیماری ہوگی، ان سب کا علاج کرنا ممکن ہوگا ۔ اس کو پہلا سپر بے بی کہا جارہا ہے ۔ دراصل یہ بچہ تین لوگوں کے ڈی این اے سے پیدا ہوا ہے ۔ اس میں ماں باپ کا ڈی این اے تو ہے ہی، ایک دیگر خاتون کا ڈی این اے بھی لیا گیا ہے ۔

    میڈیکل سائنس کے نظریہ سے یہ کرشمہ سے کم نہیں ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ بچہ انگلینڈ میں پیدا ہوا ہے ۔ بچے کی پیدائش جس تکنیک کی مدد سے ہوئی وہ مائیٹوکانڈریل بیماریوں کو روکنے کیلئے اپنائی جاتی ہے ۔ اس میں ایک صحت مند خاتون کے ایگز سے ٹشوز لئے جاتے ہیں۔ پھر ان سے آئی وی ایف جنین بنائے جاتے ہیں ۔ یہ جنین جس حمل میں پرورش پایا، اس خاتون کی جینیٹک بیماریوں سے وہ پوری طرح سے محفوظ ہوگا ۔ ماں کے جسم میں اگر کوئی بیماری ہے تو وہ بچے تک نہیں جائے گی ۔

    سائنسدانوں کے مطابق نوزائیدہ بچوں کو جینیٹک بیماریوں سے بچانے کیلئے یہ سب سے کامیاب تدبیر ہے ۔ دراصل یہ آئی وی ایف تکنیک کا ہی ایک بدلا ہوا روپ ہے ۔ اس تکنیک سے بننے والے جنین میں بایولاجیکل ماں باپ کے اسپرم اور انڈے کے مائیٹوکرانڈریا کو ملایا گیا ہے ۔

    مائیٹوکانڈریا کسی بھی خلئے کا پاور ہاوس ہوتا ہے، جو بھی نقصان دہ میوٹیشن ہوتے ہیں، وہ ان پاور ہاوس میں جمع رہتے ہیں ۔ وہ بعد میں بچے کی صحت پر اثر ڈالتے ہیں ۔ عام طور پر اس سے متاثر خواتین کو پریگنینسی میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اگر کسی طرح حاملہ ہو بھی گئی تو بچہ کو کوئی نہ کوئی جینیٹک بیماری ہوجاتی ہے ۔ اس کی صحت خراب ہونے لگتی ہے ۔

    یہ بھی پڑھئے: انوکھی شادی: 60 سال کی دلہن، 56 کا دولہا! 36 سال کیا انتظار، اب انجام تک پہنچے گا برسوں کا پیار


    یہ بھی پڑھئے: فلائٹ میں لڑکی نے بنایا ایسا ویڈیو، دیکھتے ہی بھڑک گئے لوگ، کہہ ڈالی ایسی بات



    رپورٹس کے مطابق اس پورے عمل میں 99.8 فیصد ڈی این اے ماں باپ سے لیا گیا اور باقی بچے کو جنم دینے والی خاتون سے ملا۔ بچے کو اپنے والدین سے نیوکلیئر ڈی این اے ملے گا، جو کہ شخصیت اور آنکھوں کا رنگ جیسی اہم خصوصیات اپنے  والدین سے ہی لے گا ۔ لیکن تیسری ڈونر، جو ایک عورت تھی، اس کے ڈی این اے کی ایک تھوڑی مقدار ہی ہوگی۔ یعنی زیادہ تر یہ بچہ اپنے حقیقی والدین جیسا نظر آئے گا۔
    Published by:Imtiyaz Saqibe
    First published: