ظفریاب جیلانی کی زندگی کے کچھ دلچسپ پہلو، 45 سال بابری مسجد کیس لڑنے میں گزرے، جانیے تفصیل

ظفریاب جیلانی (فائل فوٹو، ٹوئٹر)

ظفریاب جیلانی (فائل فوٹو، ٹوئٹر)

لکھنؤ میں، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کے دفتر سے بمشکل دو سو میٹر کے فاصلے پر لوک بھون کی عمارت میں اسلامیہ ڈگری کالج کے اندر قانونی چیمبر واقع ہے جہاں جیلانی نے بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعہ سے متعلق فائلوں اور کتابوں میں ڈوبے برسوں گزارے تھے۔ .

  • News18 Urdu
  • Last Updated :
  • Delhi, India
  • Share this:
    پرانشو مشرا

    معروف ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی (Advocate Zafaryab Jilani) بابری مسجد۔رام جنم بھومی ٹائٹل سوٹ کی طویل عرصے سے جاری قانونی جنگ میں مسلم فریق کا چہرہ رہے ہیں، انھوں نے بدھ (17 مئی 2023) کی سہ پہر لکھنؤ میں اپنی آخری سانسیں لیں اور داعی اجل کو لبیک کہا۔ ظفریاب جیلانی کی عمر 73 سال تھی اور وہ برین اسٹروک کے بعد کافی عرصے سے ٹھیک نہیں تھے۔

    اب جب کہ ظفریاب جیلانی اس دنیا سے گزر گئے ہیں، لیکن انھیں اس اعتبار سے یاد کیا جاتا رہے گا کہ انھوں نے اپنی تقریباً پوری زندگی بابری مسجد کیس کو لڑنے میں لگا دی اور وہ اس مقصد کے شہسوار تھے کہ قانونی اعتبار کو اس مسئلہ کو حل کیا جائے۔

    سپریم کورٹ کے 2019 کے تاریخی فیصلے میں ایودھیا کا صدی پرانا تنازعہ ہندو فریق کے حق میں طے ہونے کے بعد عوام کی قانونی جنگ سے توجہ ہٹ گئی اور ظفریاب جیلانی نے بھی عوامی زندگی سے خود کو دور کر لیا۔ ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی نے بابری مسجد کی بازیابی کے حق میں بطور مسلم فریق کے اپنی عمر عزیز کے تقریبا 45 سال لگا دیئے۔ نومبر 2019 میں جب سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا، تو ظفریاب جیلانی بلاشبہ مایوس لیکن پر امید اور پرسکون بھی تھے۔ ایک رپورٹر سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ میں پرامن آدمی ہوں۔ فیصلہ خواہ کچھ بھی ہو، ایک وکیل کی حیثیت سے میرے لیے یہ قانونی چالوں اور عدالتی تاریخوں سے زیادہ نہیں ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد انہدام کیس : سبھی ملزمین کو بری کرنے کے سی بی آئی کورٹ کے فیصلہ کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے : ظفریاب جیلانی
     اکتوبر 2019 میں سپریم کورٹ میں ہونے والی حتمی سماعت کے اختتام پر انھوں نے ہمیں بتایا کہ میں اب بھی پر امید ہوں کیونکہ بہت سے لوگ اس کیس سے متعلق وسیع معلومات، قانونی حیثیت اور معمولی تفصیلات سے واقف نہیں ہیں۔ کئی دہائیوں پر محیط اس مقدمے کی کارروائی کے دھاگوں کو اٹھانا کسی اور کے لیے میرے بعد ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔


    یہ بھی پڑھیں: اترپردیش: ظفریاب جیلانی کا انتقال ملک و قوم کا ناقابلِ تلافی نقصان : پروفیسر سید وسیم اختر

    لکھنؤ میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کے دفتر سے بمشکل دو سو میٹر کے فاصلے پر لوک بھون کی عمارت میں اسلامیہ ڈگری کالج کے اندر قانونی چیمبر واقع ہے جہاں ظفریاب جیلانی نے بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعہ سے متعلق فائلوں اور کتابوں کے درمیان برسوں گزارے تھے۔

    مجھ جیسے کاتبوں کے لیے ان کا چیمبر ایودھیا تنازعہ کے عروج کے دنوں میں سب سے زیادہ جانے والے مقامات میں سے ایک تھا۔ موصوف نے کبھی بھی اپنا وقت بانٹنے اور پیچیدہ قانونی معاملے کی وضاحت کرنے اور کیس میں ہونے والی پیشرفت سے آگاہ کرنے کی شکایت نہیں کی۔
    Published by:Mohammad Rahman Pasha
    First published: