حالیہ دنوں میں ہمارے ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی عدم برداشت کو اجاگر کرنے والے بے شمار واقعات ہوئے ہیں اور افسوسناک بات یہ ہے کہ فرقہ واریت کے پنجے ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی گھس چکے ہیں۔ کرناٹک میں حجاب پر پابندی سے لے کر پروفیسر کے ایک مسلمان طالب علم کو دہشت گرد کہنے تک کئی دل دہلا دینے والے واقعات سامنے آئے ہیں۔
حال ہی میں اتر پردیش کے بریلی میں ایک اور افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے، جہاں ایک سرکاری اسکول کے پرنسپل کو ریاست کے محکمہ تعلیم نے معطل کر دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان کے خلاف انکوائری قائم کیے جانے کا امکان ہے۔ یہ اس وقت ہوا جب کچھ دائیں بازو کے گروپوں نے اسکول کے خلاف شکایت درج کروائی کیونکہ طلبہ اپنی صبح کی اسمبلی کے دوران ’مسلمانوں کی دعا‘ پڑھ رہے تھے لیکن اصل معاملہ کیا ہے؟
معاملہ کیا ہے؟زیربحث معاملہ کسی دعا کا نہیں بلکہ مشہور نظم ’ لب پہ آتی ہے دعا‘ (Lab Pe Aati Hai Dua) ہے جو علامہ محمد اقبال (Allama Muhammad Iqbal) نے 1902 میں لکھی تھی، جو اردو میڈیم اسکولوں میں پڑھی جانے والی عام اور مقبول نظم ہے۔ یہ وہی علامہ محمد اقبال تھے، جنھیں ہندوستان کی تعریف میں بھی گیت ’سارے جہاں سے اچھا‘ (Saare Jahan Se Accha) لکھا تھا۔
’بچے کی دعا‘علامہ محمد اقبال کی یہ نظم ’بچے کی دعا‘ کے نام سے کلیات اقبال میں شامل ہے۔ یہ مشہور نظم ہے۔ جو کہ ہندوستان کے کئی اسکولوں میں اسمبلی کے دوران اجتماعی طور پر پڑھی جاتی ہے۔ اس نظم کو پڑھتے ہی بہت سے لوگ اپنے اسکولی دور کو یاد کرتے ہیں۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری!
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے!
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے!
ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یارب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
مرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو
اسکول کی طالبات کی جانب سے مذکورہ نظم پڑھنے کی ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہو رہی ہے۔ کلپ میں طالنات کو مصرعہ ’میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو‘ (mere allah burai se bachaana mujhko) پڑھتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ رپورٹس کے مطابق پولیس نے شکایت اس لیے درج کی کیونکہ یہ نظم یا دعا سرکاری اسکولوں کے شیڈول کا حصہ نہیں ہے اور اس کا تعلق ایک مذہب سے ہے۔ پولیس اہلکار نے کہا کہ یہ نظم منظور شدہ فہرست کا حصہ نہیں ہے۔ یہ ایک کمیونٹی سے متعلق ہے۔
’کسی خاص مذہب یا برادری سے تعلق نہیں‘ایک صارف نے لکھا کہ یہ بہت مضحکہ خیز ہے۔ میں نے یہ خوبصورت نظم ہندوستان میں 70 کی دہائی میں سیکھی تھی۔ ہم نے اسے کئی دعاؤں، نظموں، گانوں کے ساتھ گایا۔ ایک کیتھولک اسکول میں جہاں زیادہ تر عملہ اور طلبہ ہندو تھے، وہاں بھی یہ نظم پڑھی جاتی تھی۔ جو کسی خاص مذہب یا برادری سے تعلق نہیں رکھتی۔
پرنسپل کی معطلی کے بعد بہت سے صارفین نے ٹویٹر پر حکام کے اقدامات کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ کچھ صارفین نے نشاندہی کی کہ کوئی بھی نظم کسی خاص مذہب کا حوالہ نہیں دیتی۔
صارفین نے کہا کہ اس کے علاوہ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں سیکولرازم اور مختلف مذاہب منائے جاتے ہیں، وہاں مقبول عام نظم پر اعتراض کرنا مایوس کن ہے۔
سب سے پہلے پڑھیں نیوز18اردوپر اردو خبریں، اردو میں بریکینگ نیوز ۔ آج کی تازہ خبر، لائیو نیوز اپ ڈیٹ، پڑھیں سب سے بھروسہ مند اردو نیوز،نیوز18 اردو ڈاٹ کام پر ، جانیئے اپنی ریاست ملک وبیرون ملک اور بالخصوص مشرقی وسطیٰ ،انٹرٹینمنٹ، اسپورٹس، بزنس، ہیلتھ، تعلیم وروزگار سے متعلق تمام تفصیلات۔ نیوز18 اردو کو ٹویٹر ، فیس بک ، انسٹاگرام ،یو ٹیوب ، ڈیلی ہنٹ ، شیئر چاٹ اور کوایپ پر فالو کریں ۔