اپنا ضلع منتخب کریں۔

    نظام دکن میر عثمان علی خان کی جانب سے ہندوستانی حکومت کو 5,000 کیلو سونا کاعطیہ! جانیے تاریخی حقائق

    آصف سابع نواب میر عثمان علی خان بہادر

    آصف سابع نواب میر عثمان علی خان بہادر

    مورخین کے مطابق نظام دکن آصف سابع نواب میر عثمان علی خان بہادر (Mir Osman Ali Khan) کا سب سے بڑا کارنامہ ہندوستان کے قومی دفاعی فنڈ میں 5,000 کلو سونا عطیہ کرنا ہے۔ سال 1965 میں پاکستان کے خلاف جنگ کے بعد ہندوستان میں معاشی بحران کا سامنا تھا۔

    • News18 Urdu
    • Last Updated :
    • Hyderabad | Mumbai | Delhi | Lucknow | Karnataka
    • Share this:
    ہندوستان کی آزادی کے 75 سال مکمل ہونے کے بعد آج یعنی 17 ستمبر 2022 کو پہلی بار تلنگانہ حکومت کی جانب سے ریاستی سطح پر تلنگانہ قومی یوم یکجہتی (Telangana National Integration Day) منایا جارہا ہے، آج تمام تعلیمی اداروں میں تعطیل دی گئی ہے۔ وہیں بی جے پی کی جانب سے اس دن کو یوم نجات و آزادی (Hyderabad Liberation Day) کے طور پر منایا جارہا ہے۔ جب کہ 17 ستمبر 1948 کو ہندوستان کی ایک آزاد ریاست حیدرآباد دکن کو آپریشن پولو (Operation Polo) کے تحت انڈین یونین میں ضم کردیا گیا تھا، جس کے بعد نواب میر عثمان علی خان کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔

    سابق ریاست حیدرآباد دکن کے آخری فرمانروا آصف سابع نواب میر عثمان علی خان بہادر (Mir Osman Ali Khan, Asaf Jah VII) کا ذکر آتا ہے تو ان کے فلاحی کاموں کا ذکر ضرور کیا جاتا ہے۔ تعلیم کے شعبہ سے لے کر زندگی کے ہر میدان میں میر عثمان علی خان بہادر کی خدمات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ’’نظام سرکار‘‘ کی قائم کردہ جامعہ عثمانیہ یعنی عثمانیہ یونیورسٹی (Osmania University) سے تعلیم حاصل کرنے والے آج بھی دنیا کے ہر کونے کونے میں پائے جاتے ہیں۔

    ’نظام دکن کا سب سے بڑا کارنامہ‘

    صدر شفاخانہ یونانی، عثمانیہ اسپتال، نظامس انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسس، عثمان ساگر، اسمبلی ہال، باغ عامہ، آصفیہ لائبریری (سٹی سنٹرل لائبریری)، نظام کالج، حمایت ساگر اور نظام شوگر فیکٹری وغیرہ نواب میر عثمان علی خان کی خدمات کی یادگاریں ہیں۔ بہت سے مورخین کے مطابق نظام دکن کا سب سے بڑا کارنامہ ہندوستانی حکومت کی مدد کے طور پر 1965 میں پاکستان کے خلاف جنگ کے بعد ہندوستان کے قومی دفاعی فنڈ میں 5,000 کلو سونا عطیہ کرنا ہے۔

    بی بی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق ’’اپنے دور میں اُن کا شمار دنیا کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ ٹائم میگزین نے 22 فروری 1937 کے اپنے شمارے میں سرورق پر اُن کی تصویر چھاپتے ہوئے انھیں ’دنیا کا امیر ترین شخص‘ کہا تھا‘‘۔

    پانچ ٹن سونے کا عطیہ:

    دی ہندو مورخہ 11 نومبر 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق حق معلومات کی درخواستوں کی وجہ سے 1965 کی جنگ کے دوران نیشنل ڈیفنس فنڈ میں نظام کی جانب سے 5,000 کلو سونا عطیہ کرنے سے متعلق معلومات منظر عام پر آئی ہیں۔ پرائم منسٹر آفس کے تحت نیشنل ڈیفنس فنڈ کام کرتا ہے۔ نیشنل ڈیفنس فنڈ نے ایک رپورٹر کی جانب سے داخل کردہ آر ٹی آئی کے سوال کا جواب دیا کہ اس کے پاس ایسے کسی عطیہ کی کوئی اطلاع نہیں ہے لیکن کیا بات یہی ختم ہوتی ہے؟

    سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری کا دورہ حیدرآباد:

    نظام میر عثمان علی خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 1965 میں سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری حیدرآباد کے دورے کے دوران 5000 کلو سونا عطیہ دیا تھا۔ درحقیقت نظام نے اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لیے اکتوبر 1965 میں 6.5 فیصد سود کے ساتھ شروع کی گئی نیشنل ڈیفنس گولڈ اسکیم میں 4.25 لاکھ گرام (425 کلو گرام) سونا کا عطیہ کیا تھا۔ جب کہ آر بی آئی ایکٹ کے سیکشن 8(1)(j) کے تحت اس استفسار کو مسترد کرتے ہوئے اسے ’’پرائیویسی پر غیر ضروری حملہ‘‘ کہا گیا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: 

    مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ’مُکتی دیوس‘ تقریب کا کیا افتتاح ،دیررات پہنچے حیدرآباد

    دی ہندو کی 11 دسمبر 1965 کی ایک رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے حیدرآباد کا دورہ کیا۔ نظام حیدرآباد نواب میر عثمان علی خان اور وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے درمیان ہوائی اڈے پر چند الفاظ کا تبادلہ ہوا جب سابق حکمران ہندوستان کے وزیر اعظم کا استقبال کرنے آئے ایئر پورٹ پہنچے تھے۔ بعد میں شام کو ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے شاستری نے نظام کو گولڈ بانڈز میں 4.25 لاکھ گرام سونا عطیہ کرنے پر مبارکباد دی۔ سونا کی قیمت اس زمانے میں تقریباً 50 لاکھ روپے تھی۔ جس میں سونے کے انتہائی قیمتی پرانے سکے بھی تھے جن کی قدر بے انتہا تھی۔

    یہ بھی پڑھیں:
    کرن سنگھ نے مہاراجہ ہری سنگھ کے یوم پیدائش پر عام چھٹی کا کریڈٹ عوام اور وزیر اعظم کو دیا

    شاستری نے کہا تھا کہ ہم ان سونے کے سکوں کو پگھلانا نہیں چاہتے بلکہ اعلیٰ قیمت حاصل کرنے کے لیے انہیں بیرونی ممالک بھیجنا چاہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمیں ایک کروڑ روپے مل سکتے ہیں۔ نظام دکن کی جانب سے یہ عطیہ دور اندیشی پر مبنی تھا۔ جس کی وجہ سے ہندوستانی حکومت کو بڑے پیمانے پر مدد ملی۔
    Published by:Mohammad Rahman Pasha
    First published: