The Vial: کیسے ہندوستان کی حصولیابی بنا کورونا ٹیکہ کاری پروگرام، کیا رہے چیلنجز، جانئے اس کے ہیروز کی زبانی

The Vial: کیسے ہندوستان کی حصولیابی بنا کورونا ٹیکہ کاری پروگرام، کیا رہے چیلنجز، جانئے اس کے ہیروز کی زبانی

The Vial: کیسے ہندوستان کی حصولیابی بنا کورونا ٹیکہ کاری پروگرام، کیا رہے چیلنجز، جانئے اس کے ہیروز کی زبانی

The Vial Documentary: ہندوستان کو درپیش چیلنجز سے لے کر اس کی کامیابی پر بات کرنے والی اس ڈاکیومنٹری میں ان سبھی لوگوں سے بات کی گئی ہے، جنہوں نے اس پروگرام کو کامیاب بنانے کیلئے کافی اہم کردار نبھایا ہے ۔

  • News18 Urdu
  • Last Updated :
  • Delhi | New Delhi
  • Share this:
    نئی دہلی : کورونا وائرس نے عام سے لے کر خاص، ہر طرح کے لوگوں کی زندگی پر کافی اثر ڈالا تھا ۔ عالمی وبا کی وجہ سے مہینوں تک رہے لاک ڈاون نے نہ صرف پوری دنیا بلکہ ہندوستان کے لوگوں کو بھی کافی متاثر کیا ۔ حالانکہ ہندوستان کی تیز رفتار کوششوں کی وجہ سے ابھی حالات تیزی سے پہلے جیسے ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ ہندوستان میں دنیا کا سب سے بڑا ویکسنیشن پروگرام چلایا گیا، جس نے کورونا کو مات دینے میں اہم کردار ادا کیا ۔ لیکن اتنا بڑا ٹیکہ کاری پروگرام کس طرح بنا اور اس کو کیسے کامیاب بنایا گیا ہے۔ اس کی پوری کہانی کو ملک کے سامنے لے کر آئی ہے ہسٹری ٹی وی 18 کی ڈاکیومنٹری دی وائل ۔ انڈیاز ویکسین اسٹوری، جو کہ آج یعنی 24 مارچ رات آٹھ بجے ریلیز ہوگئی ہے ۔ اس ڈاکیومنٹری میں ملک کے وزیراعظم نریندر مودی نے کورونا وبا پر ہندوستان کی جیت پر تفصیل سے گفتگو کی ہے ۔

    ہندوستان کو درپیش چیلنجز سے لے کر اس کی کامیابی پر بات کرنے والی اس ڈاکیومنٹری میں ان سبھی لوگوں سے بات کی گئی ہے، جنہوں نے اس پروگرام کو کامیاب بنانے کیلئے کافی اہم کردار نبھایا ہے ۔ ان میں سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے سی ای او ادار پونہ والا اور مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر سمیت اگروال (سائنس دان، آئی سی ایم آر)، ڈاکٹر شمیکا روی (پبلک پالیسی ایکسپرٹ)، ڈاکٹر دیوی شیٹی (بانی، نارائن ہردالیہ) اور ڈاکٹر کرشنا ایلا (چیئرمین، بھارت بائیوٹیک) ، ڈاکٹر بلرام بھارگو ( سابق ڈائریکٹر ، آئی سی ایم آر) ، ڈاکٹر پریا ابراہم ( ڈائریکٹر ، این آئی وی پونے) شامل ہیں ۔

    ہندوستان میں کورونا کی شروعات کے وقت نہ صرف عام لوگ بلکہ طبی عملہ بھی فکرمند تھے ۔ ایک وائرس جس کے بارے میں کسی کو کوئی جانکاری نہیں تھی، اس کو کیسے پھیلنے سے روکا جائے اور کس طرح اس کا علاج کیا جائے اس کو لے کر طبی عملہ کو بھی کوئی جانکاری نہیں تھی ۔ ڈاکیومینٹری میں اسی وقت کے بارے میں نارائن ہیلتھ کے بانی ڈاکٹر دیوی پرساد شیٹی نے کہا کہ جب کورونا پوری دنیا میں پھیلنے لگا اور اس نے ہندوستان پر بھی حملہ کیا تب طبی برادری کو یہ ذرہ برابر بھی علم نہیں تھا کہ آخر یہ کیا ہے ، ہر طرف ڈر کا ماحول تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بالکل نہیں معلوم تھا کہ کیا ہم بچیں گے، ہم مریضوں کا کیسے علاج کریں گے ، کون سی دوائیں کام کریں گی کون سی نہیں کریں گی۔ جب وبا کی شروعات ہوئی ، ہمارے پاس بیڈز ختم ہونے لگے، دوائیں ختم ہونے لگیں، تباہی آنے لگی تھی، ایسا پوری دنیا میں ہورہا تھا ۔

    ویکسین بنانے کیلئے شروعات سے ہندوستان کے ذہن میں کیا چل رہا تھا، اس کو لے کر وزیراعظم مودی نے بتایا کہ اب ہمارے سامنے دو رستے تھے، کیا ہم دنیا کا کوئی ملک ویکسین بنائے گا، اس کا انتظار کریں، یا ہم بھی اپنی جینامک حالات کا پورا تجزیہ کرکے اپنے باشندگان وطن کو دھیان میں رکھ کر ویکسین ڈیولپ کریں گے، تو بامعنی ہوگا ۔ پہلے ہی ہم نے سائنسدانوں کا ایک ٹاسک فورس بنایا اور طے کیا کہ ہم اپنی ویکسین بنائیں گے ۔ اس کیلئے جو پونجی لگے گی، لگائیں گے ۔

    وائرس کے خلاف ویکسین بنانے کیلئے سب سے اہم وائرس کی نوعیت اور اس کے ویریئنٹ کے بارے میں پتہ کرنا تھا، اس کو لے کر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف وائرولاجی کے ڈائریکٹر پریا ابراہم نے کہا کہ سبھی کورونا وائرس ایک ہی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں، جس کو کورونا ویریڈے کہتے ہیں ۔ یہ سب مین وائرس سے الگ ذیلی قسم بناتے ہیں، جو تاج یا سورج کی کرنوں کی طرح نظر آتا ہے۔ اس سے پوری دنیا میں تباہی جیسا ماحول پیدا ہو گیا۔ ہم جانتے تھے کہ جو ہمارے بس میں ہے، ہمیں کرنا ہے اور وہ تھا وائرس کو لیب میں الگ کرنا، کیونکہ اس سے ہم وائرس کو پیدا کرسکتے تھے، جس سے وائرس تشخیصی ٹولز بنانے کیلئے موجود رہتا ۔ ساتھ ہی تکنیک کے طور پر یہ مستقبل کی ویکسین کیلئے بھی دستیاب رہے گا ۔ اس کیلئے ہم نے کافی تیزی سے کام کیا ۔ یہاں تک کہ اسٹاف کے زیادہ تر لوگوں کا گھر ہمارے دوسرے کیمپس میں بنا گیسٹ ہاوس ہی بن گیا تھا اور وہ اپنے گھر نہیں گئے ۔ کچھ ہی وقت میں ہم یہ بتانے کیلئے تیار تھے کہ ہم نے کامیابی سے وائرس کو الگ کرلیا ہے اور ہم ایسا کرنے والے دنیا کے پانچویں ملک تھے ۔

    ڈاکٹر پریا ابراہم نے ویکسینیشن کے شروعاتی ٹرائل کو لے کر کہا کہ اس تجربہ کو پری کلینیکل ٹرائل کہا جاتا ہے۔ ہم نے چھوٹے جانور گولڈن ہیمسٹر کو طے وقفہ پر تین ڈوز دیں۔ اس کے بعد ہم نے انہیں انسانوں کی طرح متاثر کیا جیسا کہ ویکسینیشن کے بعد ہوتا ہے ۔ اس سے صاف سمجھ آیا کہ جانور ویکسیشنین کی وجہ سے انفیکشن سے بچ گئے ۔ اس کے فورا بعد کلینیکل ٹرائل کیلئے ہم تیار تھے ۔

    آئی سی ایم آر کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر بلرام بھارگو نے اس حصولیابی کو حاصل کرنے کا کریڈٹ سرکار کو دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنی ویکسین بنانے کا فیصلہ کیا کیونکہ ہم جانتے تھے کہ ہمارے پاس ایک مضبوط قیادت ہے ۔ یہ قیادت خود کفالت میں یقین رکھتی ہے ۔ اعلی قیادت نے یہ بات واضح کردی کہ انہیں ہندوستانی پروڈکٹ پر پورا بھروسہ ہے، انہیں ہندوستان کے سائنس اور اس کے ویکسین پہنچانے کی صلاحیت پر پورا بھروسہ ہے ۔

    یہ بھی پڑھئے: کووڈویکسینیشن کےمعاملے میں ہندوستان کیسےبنا دنیامیں نمبر1، ‘The Vial’ میں دیکھئے پورا سفر


    یہ بھی پڑھئے : The Vial’ Premieres: ہسٹری ٹی وی 18 کی ڈاکیومنٹری 'دی وائل' کا پریمیئر آج


    وہیں سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے سی ای او ادار پونہ والا نے بتایا کہ یہ ظاہر تھا کہ سیریم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا جیسا داکارہ جو کہ ہمیشہ ویکسین بناتا رہا ہے اور دنیا کی تقریبا 50 فیصد ویکسین کو تیار کرتا ہے، کو ویکسین بنانے کی شروعات کرنی چاہئے ۔ اس میں صرف اقتصادی رسک نہیں تھا ۔ اس میں اس سے زیادہ لوگوں کی جان کو لے کر ایک ذمہ داری بھی کا جذبہ بھی تھا ۔ ہم نے جنوری 2021 میں ایک سال کے اندر ہی ویکسین لانچ کردی جو کہ ایک سال کے اندر ہی ہوا ۔ یہ ایک طرح کا ورلڈ ریکارڈ تھا ۔

    خیال رہے کہ 'دی وائل' ہسٹری TV18 کا اوریجنل پروڈکٹ ہے، جس کو کولوسیم میڈیا نے تیار کیا ہے۔ اس کا پریمیئر 24 مارچ 2023 کو ہسٹری ٹی وی 18 پر رات 8 بجے کیا گیا۔
    Published by:Imtiyaz Saqibe
    First published: