نئی دہلی: اتوار کے روز7فروری2022 کو بھارت رتن اور سروں کی ملکہ لتا منگیشکر (Lata Mangeshkar) نے دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ انہوں نے بانویں سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد ممبئی کے بریچ کینڈی اسپتال میں آخری سانس لی۔ یہاں وہ کورونا سے متاثر ہونے کے بعد تقریباً 28 دن تک داخل تھیں۔ انہیں ممبئی کے شیواجی پارک میں سرکاری اعزاز کے ساتھ آخری الوداعی دیا گیا۔ لتا منگیشکر کو الوداع کرنے کے لیے سیاست اور فلمی دنیا سے جڑی تمام ہستیاں پہنچی تھیں۔ اس موقع پر شاہ رخ خان (Shahrukh Khan) بھی لتا منگیشکر کو خراج تحسین پیش کرنے پہنچے۔
اس دوران شاہ رخ خان کی منیجر پوجا داڈلانی بھی ان کے ساتھ تھیں۔ لتا منگیشکر کی آخری رسوم سے قبل شاہ رخ خان ان کی آخری دیدار کے لیے پہنچے تھے۔ اس دوران انہوں نے ہاتھ پھیلا کر دعا مانگی اور اس کے بعد لتا جی کے جسد خاکی پر پھونک مارنے کی رسم ادا کی۔ بس ٹرولرس نے انہیں اسی بات پر ٹرول کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے شاہ رخ خان کی دعا پڑھ کر پھونکنے کو یہ کہہ کر ٹرول کیا کہ انہوں نے تھوکا ہے۔ لوگوں نے اس ویڈیو کا انتہائی غیر سنجیدہ اور غلط مطلب نکالا۔
کئی لوگوں نے ٹویٹر پر کنگ خان نشانہ سادھنے کی کوشش کی اور غلط مطلب نکالا تو وہیں شاہ رخ خان کا یہ اعزاز کافی لوگوں کو پسند بھی آیا۔ پھر بس یہیں سے شاہ رخ خان کے مداح ان ٹرول کرنے والوں کو سبق سکھانے شاہ رخ خان کی حمایت میں اتر آئے اور ان کی اس تصویر کو شیئر کرکے اسے بیحد ہی خوبصورت تصویر قرار دیا۔
ایک ٹوئٹر صارف نے شاہ رخ خان اور پوجا ددلانی کی تصویر پر لکھا- یہ تھوکنا نہیں ہے، اسے دعا پڑھ کر پھونک مارنا کہتے ہیں، دعا ہے یہ۔' ایک اور یوزر نے شاہ رخ خان اور ان کی منیجر پوجا ددلانی کی تصویر پر تبصرہ کیا کہ یہ اتنی خوبصورت تصویر ہے۔ ان کے جواب میں ایک اور یوزر نے لکھا- اس تصویر کا خیال بھی اس ملک کے منافقین اور علیحدگی پسندوں کو پسند نہیں آیا۔ بہت بری بات ہے کہ ایسا ملک بنانے کے لیے ہی ہمیں لڑتے رہنا ہے۔
لتا منگیشکر کے انتقال پر ہندوستان بھر میں سوگ کا ماحول محسوس کیا جارہا ہے۔ لتا منگیشکر کی موت ملک کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔ ان کی روح کو سکون ملے! لتا منگیشکر کی جسد خاکی آخری جھلک کے لیے ممبئی کے مشہور شیواجی پارک میں رکھا گیا۔ آخری رسوم (Lata Mangeshkar Funeral) شیواجی پارک میں بجے پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کی گئیں۔ ۔ تقریباً سات بج کر پندرہ منٹ پر بھائی نے انہیں مگنی دی۔
ممبئی: لتا منگیشکر (Lata Mangeshkar) کی موت سے پورا ملک ابھی تک صدمے میں ہے۔ سروں کی ملکہ نے طویل علالت کے بعد اتوار کی صبح 8 بجکر 12 منٹ پر آخری سانس لی۔ لتا منگیشکر کی موت کی خبر سن کر نہ صرف بالی ووڈ بلکہ پورا ملک صدمے میں ڈوب گیا۔ اداکاروں سے لے کر سیاستدانوں تک، عظیم گلوکار کی آخری جھلک کے لیے پہنچے۔ لتا منگیشکر کے انتقال کے بعد جہاں پورے ملک میں سوگ کا عالم ہے وہیں ان کی چھوٹی بہن آشا بھوسلے (Asha Bhosle) بچپن کی یادوں میں کھو گئی ہیں۔ آشا بھوسلے نے انسٹاگرام پر بچپن کی ایک پرانی تصویر کے ذریعے اپنی بہن کو یاد کیا۔
تصویر میں، جہاں آشا بھوسلے کو ڈیسک پر بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے تو وہیں لتا منگیشکر ان کے پاس کھڑی ہیں۔ تصویر شیئر کرتے ہوئے آشا بھوسلے نے ایک انتہائی جذباتی نوٹ بھی لکھا ہے۔ آشا بھوسلے نے لکھا- 'بچپن کے دن بھی کیا دن تھے۔ دیدی اور میں۔ اس کے ساتھ انہوں نے ریڈ ہارٹ ایموجی بھی بنایا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس تصویر کو دیکھ کر مداح ایک بار پھر عظیم گلوکارہ کو دیکھ کر جذباتی ہو گئے ہیں۔ @asha.bhosle)
وہ سریلی آواز جسے سن کر سرحد پر کھڑے جوانوں کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے، جن کا گانا سن کر ملک کے سابق وزیر اعظم پنڈت نہرو کی آنکھوں سے آنسو آ گئے تھے۔ ایک ایسی آواز جو اتنی الگ اور میٹھی تھی کہ ان آواز کو پوری دنیا نے نہ صرف انتہائی الگ مانا بلکہ موسیقی کی تاریخ میں قدرت کا دیا ہوا اسے سب سے قیمتی تحفہ مانا۔ جی ہاں ہم بات کر رہے ہیں بھارت رتن لتا منگیشکر Lata Mangeshkar کی، جو آج پمارے بیچ نہیں رہی ہیں۔
حب الوطنی پر مبنی گانا ’’اے میرے وطن کے لوگو‘‘ چین ۔ ہندوستان جنگ کے بعد لکھا گیا تھا اور تب سے یہ ہندوستانی قوم پرستی کی علامت بن گیا ہے۔ جب لتا منگیشکر نے اسے 27 جنوری 1963 کو نیشنل اسٹیڈیم میں صدر ڈاکٹر ایس رادھا کرشنن اور وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی موجودگی میں گایا تو اس وقت کے وزیر اعظم کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں تھی۔
بھارت رتن لتا منگیشکر (Lata Mangeshkar)کے سدابہار گانے آج بھی اتنے ہی سنے جاتے ہیں، جتنے پہلے سنے جاتے تھے۔ یقیناً اس کی وجہ ان کی بے حد سریلی آواز ہے جس کے لئے انہوں نے کافی مشق اور محنت کی تھی۔ گھر کے ماحول میں موسیقی رچی بسی ہوئی تھی۔ لتا جی کے والد دیناناتھ منگیشکر مشہور موسیقار تھے۔ خاندان میں سبھی بہنیں اور بھائی موسیقی کی تعلیم لیتے تھے۔
سبھی جانتے ہیں کہ لتا منگیشکر باصلاحیت گلوکارہ آشا بھوسلے کی بہن ہیں۔ آشا کے علاوہ لتا منگیشکر کی دو اور بہنیں ہیں جن کے نام اوشا منگیشکر اور مینا منگیشکر ہیں۔ وہ بھی ایک گلوکارہ ہیں جو آشا اور لتا کی طرح مشہور نہیں ہیں، لیکن انہوں نے بہت سے ہندوستانی گانے گائے ہیں۔ لتا جی کا ایک بھائی بھی ہے، جن کا نام ریدہے ناتھ منگیشکر ہے۔ وہ بھی موسیقی کی دنیا سے ہی وابستہ ہیں۔
لتا جی اپنی گائیکی کو نکھارنے کے لیے دن بھر مشق کرتی تھیں۔ جب لتا نے گانا شروع کیا تو اس وقت آج جیسی ٹیکنالوجی موجود نہیں تھی۔ پھر گانوں میں ایفکیٹ ڈالنے کے لیے مختلف ریکارڈنگ کی جاتی تھی۔ لتا کا مشہور گانا ’آئےگا آنے والا‘ سن کر لگتا ہے کہ کسی نہ کسی تکنیک کی مدد سے اتار چڑھاؤ پیدا کیا گیا ہے لیکن جب یہ گانا ریکارڈ کیا گیا تو آواز کی ریکارڈنگ اور مکسنگ کی ٹیکنالوجی جب تیار ہی نہیں ہوئی تھی۔
لتا نے اس دور کے تمام بڑے موسیقاروں انل بسواس، سلل چودھری، شنکر جے کشن، ایس ڈی برمن، نوشاد، مدن موہن کے ساتھ کام کیا۔ لتا کو ان کی گیت کے لئے 1969 میں پدم بھوشن، 1999 میں پدم وبھوشن، 1989 میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ، 1999 میں مہاراشٹر بھوشن ایوارڈ، 2001 میں بھارت رتن، 3 قومی فلم ایوارڈ، 1993 میں فلم فیئر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ لتا نے 1948 سے 1989 تک 30 ہزار سے زیادہ گیت گائے ہیں جو ایک ریکارڈ ہیں۔
جہاں ایک طرف لتا نے کیریئر میں اونچی پروازبھری، وہیں نجی زندگی میں انہیں بہت سے مشکلات سے بھی گزرنا پڑا۔ لتا کی سگی بہن آشا بھونسلے سے ان کے تعلقات کو لے کر بھی بالی ووڈ کی گلیاروں میں کئی کہانیاں سامنے آتی رہیں۔ والد کی موت کے بعد لتا کے سر پر گھر کی ذمہ داری آ گئی، لیکن جس گھر کو ہینڈل کرنے لتا جی جان سے لگی تھیں اس گھر میں اس وقت طوفان آ گیا جب ان کی چھوٹی بہن آشا نے اپنے سے دوگنے عمر کے آدمی سے شادی کر لی اور گھر چھوڑ کر چلی گئیں۔
اپنی زندگی سے مایوس آشا نے جب دوبارہ اپنی زندگی کی شروعات کی تب بھی لتا کا کوئی خاص تعاون انہیں نہیں ملا۔ ایک دور تھا جب لتا کا میوزک انڈسٹری میں تہنا راج تھا، کہا جاتا ہے کہ لتا کی وجہ سے آشا کے ہاتھ سے بہت سارے مواقع چھن گئے ہیں، لیکن آشا بھونسلے نے اپنی الگ شناخت بنائی، تاہم سالوں کے بعد دونوں بہنیں ایک ساتھ اسٹیج پر نظر آئی تھیں۔
سروں کی ملکہ، بھارت رتن ایوارڈ یافتہ گلوکارہ لتا منگیشکر 92 سال کی عمر میں دنیا کو الوداع کہہ گئیں۔ انہوں نے (Lata Mangeshkar آج صبح چھ جنوری کو ممبئی کے بریچ کینڈی اسپتال میں آخری سانس لی۔ لتا دی، جو گزشتہ 28 دنوں سے اسپتال میں اپنی زندگی سے جنگ لڑ رہی تھیں، آج اپنے کروڑوں مداحوں کی آنکھیں نم کر گئیں۔ 28 ستمبر 1929 کو اندور میں ایک درمیانی طبقے کے مراٹھا خاندان میں پیدا ہونے والی لتا منگیشکر نے اپنی زندگی تنہا گزاری۔ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی نے شادی نہیں کی تھی، ایسا انہوں نے کیوں کیا، اس کا انہوں نے خود ہی انکشاف کیا تھا۔
انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ زندگی میں کبھی تنہا محسوس کرتی ہیں، خالی پن ہے… تو لتا منگیشکر نے کہا کہ میرے تمام دوست چلے گئے ہیں۔ نرگس اور مینا کماری میری قریبی دوست تھیں۔ ان کی وفات تک ہم مسلسل رابطے میں رہے۔ ایک اور دوست میرا دیو آنند بھی تھا جس سے میں مسلسل رابطے میں رہتی تھی۔ دوستوں کے جانے کے بعد زندگی میں ایک خالی پن کا احساس ہوتا تھا۔