شاید ہی اس بات پر کسی کو شک ہوگا کہ فیشن انڈسٹری کی چمک۔دھمک والی دنیا کے پیچھے ایک سیاہ دنیا بھی بستی ہے۔ ہاں ایسا ضرور ہے کہ ہم اس کی سچائی کے بارے میں جانتے نہیں اور کئی مسئلوں میں جاننا بھی نہیں چاہتے۔ دبلے۔پتلے جسموں پر چمکتے۔دمکتے کپڑوں اور زیورات کے پیچھے جو ماڈلس ہیں انہیں انسانوں کے طور پر شاید ہی کوئی دیکھتا ہے لیکن ان کی بھی اپنی زندگی ہوتی ہے اور ان کے بھی جذبات ہوتے ہیں۔ ایسی ہی مشکلات کے چلتے سپر ماڈل کارا ڈیلیونگنے (Cara Delevingne) نے ایسے وقت میں ماڈلنگ اور ہالی ووڈ کو الوداع کہہ دیا تھا جب وہ شہرت کی اونچائیوں پر تھیں۔ ہم یہاں آپ کو فیشن انڈسٹری کے ایسے ہی کچھ کالے راز کے بارے میں بتا رہے ہیں جو آپ کو اس کی چمک دھمک بھری زندگی سے آگے دیکھنے کا ایک ننظریہ دیں گے۔ (تصویر: اے پی)۔
فیشن انڈسٹری میں آج بھی ایک طرح کی داس۔پرتھا ہے۔ کئی مرتبہ فیشن برانڈس ان ممالک سے ماڈلس کا امپورٹ کرتے ہیں جہاں وہ ان کے ممالک کے مقابلے سستے میں مہیا ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی جن ممالک میں رہنے کا خرچ کم ہوتا ہے۔ ایسے میں یہاں کی ماڈلس کو اپنے ملک کے مقابلے زیادہ پیسے نہیں دینے ہوتے اور ان سے کام کروا لیا جاتا ہے۔ تصویر: اے پی۔
زیادہ تر برانڈس اپنے کپڑے بنگلہ دیش جیسے ترقی پذیر ممالک میں تیار کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں نہ صرف کپڑا سستا ہے ، بلکہ اسے ڈریس کے طور پر تیار کرنے کیلئے بھی اپنے ملک کے مقابلے کم پیسے دینے پڑتے ہیں۔ ایک اسٹڈی کے مطابق بڑے برانڈس کے صڑف دو فیصد کپڑے یوروپ میں تیار ہوتے ہیں باقی 98 فیصد پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں تیار کرکے پوری دنیا میں بھیجے جاتے ہیں۔ تصویر: پی ٹی آئی۔
سوتی کپڑا بہت خراب ہوتا ہے یہ سن کر آپ ضرور حیرانی ہوئی ہوگی۔ ایسا اس لئے کیونکہ اسے صاف تازہ اور قدرتی بتاکر بیچا جاتا ہے لیکن اس میں جتنے پانی اور کیمیکل کا استعمال ہوتا ہے یہ اسے زمین کی ایک خراب فصل بنا دیتا ہے۔ بتادیں کہ ایک جھولا بھر کپڑے بنانے میں جتنا پانی خرچ ہوتا ہے۔ اس سے ایک انسان 80 سالوں تک اپنی پیاس بجھا سکتا ہے۔ تصویر: پی ٹی آئی۔
دنیا میں آلودگی بڑھانے میں فیشن انڈسٹری کا بڑا کردار ہے۔ مقامی ٹیکسٹائل کی فیکٹریاں اپنا سارا پانی کسی نہ کسی دریا میں ڈال دیتے ہیں۔ لوگ یہ پانی روز مرہ کے کاموں میں لاتے ہیں اور کئی بار کسان اسی سے سینچائی کرتے ہیں۔ آپ نے اکثر ندیوں میں سفید جھاگ کو دیکھا ہے ، خاص طور پر اگر آپ نے دہلی کی یمنا ندی دیکھی ہوگی۔ یہ تب بنتا ہے جب دریا کے پانی میں آکسیجن کی سطح میں تیزی سے کمی آتی ہے۔ یہ پانی دریا کے قریب موجود تمام گھاس ، درختوں اور پودوں کو ختم کرسکتا ہے۔ اس میں مرکری، کیڈیمیم ،لیڈ اور آرسنک جیسے عنصر عام ہیں۔ تصویر: پی ٹی آئی۔
کئی ساری بچیاں جو 13 سال یا اس سے بھی کم ہوتی ہیں وہ اپنی عمر 15 سال بتاکر ماڈلنگ کرنے لگتی ہیں۔ ان بچوں سے کیٹ واک کروانا نہ صفر قانونی جرم ہے بلکہ یہ بچیاں اسٹائلسٹ، ڈیزائنر، فوٹو گرافر اور صحافیوں کے سامنے ہی کپڑے بدلنے کو مجبور ہوتی ہیں۔ جہاں انہیں نہ تو پرائیویسی ملتی ہے اور ساتھ ہی ان کا استحصال ہونے کا امکان بھی رہتا ہے۔ تصویر: پی ٹی آئی۔
زیادہ تر ماڈل سوچتی ہیں کہ ایک مرتبہ اس کریئر میں آںے کے بعد وہ بہت مشہور ہو جائیں گی اور انہیں غیر ممالک جانے اور شو کرنے کا موقع ملے گا لیکن یہ ایک خواب جیسا ہوتا ہے۔ کیونکہ گنی چنی ماڈل ہی اپنے کریئر میں اس سطح تک پہنچ پاتی ہیں ورنہ زیادہ تر وقت باہر کے شو میں ایک ہی بستر پر چار سے چھ ماڈلس کو سونا پڑتا ہے۔ تصویر: پی ٹی آئی۔
حال ہی میں فیشن کی دنیا کے ایک بڑے امریکی نام ڈوو چارنی پر اپنی ماڈلس کا جنسی استحصال کرنے کا الزام لگے۔ ماڈلس نے بتایا کہ انہیں کام کے بدلے آدھی نیوڈ یا نیوڈ پوز دینے اور سیکس کرنے کیلئئ مجبور کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد انہیں اپنی کمہنی میں سی ای او کا عہدہ چھونا پڑا لیکن یہ پہلا معاملہ تھا اور نہ آخری۔ فیشن انڈسٹری میں اکثر ایسے معاملے سنائی پڑتے ہیں۔ تصویر: پی ٹی آئی۔