نیویارک. گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی دنیا کے مشہور ایٹمی سائنسدانوں (Atomic Scientists) نے ڈومس ڈے کلاک The Doomsday Clock) کے وقت میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔ڈومس ڈے کلاک کو قیامت کی گھڑی کہا جاتا ہے۔ سال 2022 میں بھی دنیا قیامت سے محض 100 سیکنڈ (100 seconds to midnight) دور کھڑی ہے۔ دنیا بھر کے ایٹمی سائنسداں خطروں کو دیکھتے ہوئے 1947 سے یہ بتاتے آ رہے ہیں کہ دنیا بڑی تباہی کے خطرے سے کتنی دور ہے۔ جمعرات کو واشنگٹن ڈی سی، امریکہ میں سالانہ ڈومس ڈے کلاک کا اعلان کرتے ہوئے سائنسدانوں نے کہا کہ پوری دنیا میں تباہی کا خطرہ ابھی بھی منڈلا رہا ہے۔
ڈومس ڈے کلاک کے صدر اور سی ای او ریچل برونسن نے بلیٹن آف اٹامک سائنٹسٹ میں کہا کہ یہ گھڑی خطرناک طریقے سے اپنی رفتار کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایک محفوظ اور صحت مند سیارے کو یقینی بنانے کے لیے کتنا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں آدھی رات سے گھڑی کی سوئیوں کو آگے بڑھانا جاری رکھنا چاہیے۔ ہم آدھی رات کے جتنے قریب ہوں گے، ہم اتنے ہی زیادہ خطرے میں ہوں گے۔ ابھی یہ وقت 100 سیکنڈ کا ہے۔
ڈومس ڈے کلاک ایک علامتی گھڑی ہے جو انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے عالمی تباہی کے امکان کو بتاتی ہے۔ گھڑی میں آدھی رات کے 12 بجنے کو بھاری تباہی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ 1945 میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملوں کے بعد یہ گھڑی سائنسدانوں نے دنیا کو انسانوں کے بنائے ہوئے خطرے سے خبردار کرنے کے لیے بنائی تھی۔
اس گھڑی میں آدھی رات کے 12بجنے کا مطلب ہے کہ دنیا کا خاتمہ بہت قریب ہے یا دنیا میں جوہری حملے کا امکان 100 فیصد ہے۔ ڈومس ڈے کلاک کی یہ assessment جنگی ،ہتھیار، موسمیاتی تبدیلی، تباہ کن ٹیکنالوجی، فرضی ویڈیو، آڈیو، خلا میں فوجی طاقت بڑھانے کی کوشش، اور ہائپرسونک ہتھیاروںکی بڑھتی ہوڑ سے ماپا گیا ہے۔
1947 میں گھڑی کی اصل ترتیب آدھی رات سے سات منٹ پہلے تھی۔ اس کے بعد اسے 24 بار آگے پیچھے کیا جا چکا ہے۔ 1953 میں جب شیت جنگ چل رہی تھی تو یہ گھڑی سب سے اوپر تھی۔ یہ 1991 کی آدھی رات سے 17 منٹ کی دوری پر تھی (جب سرد جنگ ختم ہوئی)۔ جبکہ 2020 اور 2021 میں یہ آدھی رات سے 100 سیکنڈ کے فاصلے پر رہ گئی ہے۔