امریکہ (America) کے ساتھ اس وقت ایران(Iran) کے جنگ جیسے حالات بنے ہوئے ہیں۔ اس درمیان ایران کے سخت اسلامک قاعدے۔قانونوں کا بھی ذکر چل پڑا ہے۔ اس ملک میں کئی ایسے قانون ہیں جو سننے میں بھی عجیب ہیں۔ یہاں زیادہ تر قانون عورتوں پر نافذ ہوتے ہیں جس میں غیر مردوں سے ہاتھ ملانے پر مناہی سے لیکر طلاق نہ لے سکنے جیسے قانون بھی ہیں۔
جیسے یہاں پر عورتیں میدان میں جاکر فٹ بال میچ نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ اس بارے میں اسلامی مذہبی رہنماؤں کا ترک تھا کہ خواتین کو مردوں والے کھیل دیکھنے یا ویسے ماحول سے بچنا چاہئے۔ حالانکہ فٹ کےبال عاشق سحر کوڈیاری کی خودکشی سے ایرا کو جھکنا پڑا۔ 29 سال کی سحر کو میدان میں بیٹھ کر میچ دیکھنے کی اتنی چاہ تھی کہ وہ مردوں کا حلیہ بناکر کھیل دیکھنے پینچ گئیں۔ لیکن سکیورٹی گارڈس نے شک کی وجہ سے انہیں روک لیا اور کورٹ نے انہیں 6 ماہ کی قید کی سزا طے کی۔ صدمے میں سحر نے آگ لگاکر خودکشی کرلی۔ اس کے بعد دنیا بھر میں ایران کی اس پالیس کی جم کر مخالفت ہوئی۔ اب تہران کے آزادی اسٹیڈیم میں کمبوڈیا کے خلاف ہونے والے ورلڈ کپ 2022 کوالی فائر میچ میں 3500 خواتین کو بیٹھ سکنے کی اجازت ملی ہے۔
یہاں خواتین کےغیر مردوں سے ہاتھ ملانے پر مناہی ہے۔ اگر عام مقامات پر کوئی خاتون کسی مرد سے ہاتھ ملاتی نظر آجاتی تو اس پر جرمانہ اور قید بھی ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے جب ایرانی خاتون ٹیم نے گلوبل چینج ٹورنامنٹ جیتا تھا تو ٹیم کے کوچ نے اپنی کھلاڑیوں سے ایک کلپ بورڈ کی مدد سے ہاتھ ملایا اور انہیں شاباشی دی تھی۔
سب سے خطرناک قانون یہاں سال2013 میں پاس ہوا تھا جس کے تحت والد اپنی گود لی ہوئی بیٹی سے شادی کرسکتا ہے۔ The Islamic Consultative Assembly جسے مجلس بھی کہاجاتاہے نے یہ قانون بنایا۔ ان کی دلیل تھی کہ اس سے 13 سال کی لڑکیوں کو اپنے والد کے ہی بھی سامنے حجاب پہننے سے آزادی مل جائے گئ۔ The Guardian میں چھپی تھی۔
ایسی شادی کیلئے والد کو 2 شرطیں پوری کرنی ہوتی ہیں بیٹی کی عمر 13 سال کی یا اس سے زیادہ ہونی چاہئے اور والد کو یہ دلیل دینی ہوتی ہے کہ یہ کام وہ بیٹی کی بھلائی کیلئے کررہا ہے۔ اس قانون کی سوشل ایکٹوسٹوں نے جم کر مخالفت کی۔ حالانکہ اب تک یہ صاف نہیں ہوسکا کہ یہ قانون اب بھی نافذ ہے یا اس میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی۔