ماں، یہ صرف ایک لفظ نہیں ہے۔ زندگی کا یہ وہ جذبہ ہوتا ہے، جس میں پیار، صبر، یقین، کتنا کچھ سمایا ہوتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی کونہ ہو، کوئی بھی ملک ہو، ہر اولاد کے دل میں سب سے انمول پیار ماں کے لئے ہوتا ہے۔ ماں صرف ہمارا جسم ہی نہیں گڑھتی، بلکہ ہمارا من، ہماری شخصیت، ہماری خود اعتمادی بھی گڑھتی ہے اور اپنی اولاد کے لئے ایسا کرتے ہوئے وہ خود کو کھپا دیتی ہے، خود کو فراموش کردیتی ہے۔
آج میں اپنی خوشی، اپنی خوش بختی، آپ سب سے ساجھا کرنا چاہتاہوں۔میری ماں، ہیرا بین آج 18جون کو اپنے 100ویں سال میں داخل ہورہی ہیں۔یعنی ان کی پیدائش کا صدی سال شروع ہورہا ہے۔ پتا جی آج ہوتے،تو پچھلے ہفتے وہ بھی 100 سال کے ہو گئے ہوتے۔ یعنی 2022 ایک ایسا سال ہے، جب میری ماں کی پیدائش کا صدی سال شروع ہورہا ہے اور اسی سال میرے پتاجی کی پیدائش کا صدی سال مکمل ہوا ہے۔
میری ماں جتنی عام ہیں، اتنی ہی غیر معمولی بھی۔ ٹھیک ویسے ہی، جیسے ہر ماں ہوتی ہے۔ آج جب میں اپنی ماں کے بارے میں لکھ رہاں ہوں تو پڑھتے ہوئے آپ کو بھی یہ لگ سکتا ہے کہ ارے، میری ماں بھی تو ایسی ہی ہیں، میری ماں بھی تو ایسا ہی کیا کرتی ہیں۔ یہ پڑھتے ہوئے آپ کے من میں اپنی ماں کا عکس ابھرے گا۔
میری ماں کا جنم، مہسانا ضلع کے وِس نگر میں ہوا تھا۔وڈنگر سے یہ بہت دور نہیں ہے۔ میری ماں کو اپنی ماں ، یعنی میری نانی کا پیار نصیب نہیں ہواتھا۔ ایک صدی پہلے آئی عالمی وباء کا اثر تب بہت سالوں تک رہا تھا، اسی وباء نے میری نانی کو بھی میری ماں سے چھین لیا تھا۔ ماں تب کچھ ہی دنوں کی رہی ہوں گی۔ انہیں میری نانی کا چہرہ، ان کی گود کچھ بھی یاد نہیں ہے۔ آپ سوچئے میری ماں کا بچپن ماں کے بغیر ہی گزرا۔ وہ اپنی ماں سے ضد نہیں کرپائیں، ان کے آنچل میں سر نہیں چھپا سکیں۔
ماں کو حرف کا علم بھی نصیب نہیں ہوا، انہوں نے اسکول کا دروازہ بھی نہیں دیکھا۔ انہوں نے دیکھی تو صرف غربت اورگھر میں ہر طرف محرومی۔ ہم آج کے وقت میں ان حالات کو جوڑ کر دیکھیں، تو تصور کرسکتے ہیں کہ میری ماں کا بچپن کتنی مشکلات سے بھرا تھا۔شاید ایشور نے ان کی زندگی کو اسی طرح سے گڑھنے کی سوچی تھی۔آج ان حالات کے بارے میں ماں سوچتی ہیں، تو کہتی ہیں کہ یہ ایشور کی ہی مرضی رہی ہوگی۔ لیکن اپنی ماں کو کھونے کا۔ ان کا چہرہ تک نہ دیکھ پانے کا درد انہیں آج بھی ہے۔
بچپن کی جدوجہد نے میری ماں کو عمر سے بہت پہلے بڑا کردیا تھا۔وہ اپنے خاندان میں سب سے بڑی تھیں اور جب شادی ہوئی تو بھی سب سے بڑی بہو بنیں۔ بچپن میں جس طرح وہ اپنے گھر میں سب کی فکر کرتی تھیں، سب کا خیال رکھتی تھیں، سارے کام کاج کی ذمہ داری اٹھاتی تھیں، ویسے ہی ذمہ داریاں انہیں سسرال میں اٹھانی پڑیں۔ ان ذمہ داریوں کے درمیان،ان پریشانیوں کے درمیان ماں ہمیشہ پرسکون دل سے، ہر حالت میں خاندان کو سنبھالے رہیں۔
ماں کبھی توقع نہیں کرتی تھیں کہ ہم بھائی بہن اپنی پڑھائی چھوڑ کر ان کی مدد کریں۔ وہ کبھی مدد کے لئے، ان کا ہاتھ بٹانے کے لئے نہیں کہتی تھیں۔ ماں کو لگاتار کام کرتے دیکھ کر ہم بھائی بہنوں کو خود ہی لگتا تھا کہ کام میں ان کا ہاتھ بٹائیں۔مجھے تالاب میں نہانے کا، تالاب میں تیرنے کا بڑا شوق تھا اس لئے میں بھی گھر کے کپڑے لے کر انہیں تالات میں دھونے کے لئے نکل جاتا تھا۔ کپڑے بھی دھل جاتے تھے اور میرا کھیل بھی ہوجاتا تھا۔
ماں کو گھر سجانے کا، گھرکو خوبصورت بنانے کا بھی بہت شوق تھا۔ گھر خوبصورت دکھے، صاف دکھے، اس کے لئے وہ دن بھر لگی رہتی تھیں۔ وہ گھر کے اندر کی زمین کو گوبر سے لیپتی تھیں۔ آپ لوگوں کو پتہ ہوگا کہ جب اُپلے یا گوبر کے کنڈے میں آگ لگاؤ تو کئی بار شروع بہت دھواں ہوتا ہے۔ ماں تو بغیر کھڑکی والے اس گھر میں اُپلے پر ہی کھانا پکاتی تھیں۔ دھواں نکل نہیں پاتا تھا اس لئے گھر کے اندر کی دیواریں بہت جلدی کالی ہوجایا کرتی تھیں۔ ہر کچھ ہفتوں میں ان دیواروں کی بھی پتائی کردیا کرتی تھیں۔ اس سے گھر میں ایک نیا پن سا آجاتا تھا۔