ہر ظلم کے خلاف خواہ وہ ظلم کسی پر بھی ہو اپنی آوازاٹھانا ہم اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ یہ بات جمعیتہ علمائے ہند کے صدر اورامیر الہند مولانا قاری محمدعثمان منصورپوری نے آج یہاں جمعیتہ علمائے ہند کے زیر اہتمام منعقدہ اسرائیل کے خلاف زبردست احتجاج کے دوران صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ جمعیتہ علمائے ہند نے ہمیشہ ظالموں کے خلاف اپنی آواز بلند کی ہے اور اس کی کبھی پرواہ نہیں کی کہ ظالم کا قدکتنا بڑا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اسرائیل فلسطین کے ساتھ مستقل طور پر ظلم کو روا رکھے ہوئے ہے اور روز کوئی نہ کوئی علاقہ یا انسان کو قتل کرتا ہے۔ قاری عثمان نے صدر جمہوریہ کو پیش کرنے والے میمورنڈم میں کہا کہ ’’ہم دہشت گرد ملک اسرائیل کے صدر ریولن کی ہندوستان آمد اور ان کے استقبال کی پر زور مذمت کرتے ہیں اور ہندوستان کے عوام نے ہمیشہ فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے نیز اسرائیلی جارحیت کے متاثرین فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
میمورنڈم میں جمعیتہ علمائے ہند نے الزام لگایا کہ اسرائیل نے اپنے مکروہ کردار سے خطہ عرب کو بدامنی کا گہوارہ بنادیا ہے اور فلسطینی شہریوں کی اکثریت کو ان کے گھروں میں سے نکال کر ان کی بستیوں کو تباہ کرکے پناہ گزین کی زندگی گزارنے پر مجبور رکھا ہے۔ اس کے علاوہ 1967سے ناجائز طور پر تسلط حاصل کرکے غزہ اور مغربی کنارے کے عوام پر ہر طرح کے مظالم کو روا رکھا ہے۔اس کے علاوہ عالمی برادری، عالم اسلام اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتے ہوئے چار نکاتی تجاویز بھی پیش کئے۔
جمعیتہ کے سکریٹری مولانا نیاز احمد فاروقی نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ ہمارے ملک کی گہری دوستی ایسے وقت میں ہورہی ہے جب یواین او میں اس کے دوست ممالک کی تعداد کم ہورہی ہے اور دشمن ملک کی بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے اسرائیل کو دہشت گرد ملک قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ اسرائیل نہ صرف دہشت گرد ملک ہے بلکہ دہشت گردی کی پیدائش بھی اسرائیل میں ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر دہشت گردی کی جنگ میں اسرائیل کو شریک کریں گے تو ہماری آواز میں میں اثر نہیں ہوگی۔ انہو ں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ اسرائیل سے گہری دوستی سے وقتی طور پر معاشی فائدہ ہمیں حاصل ہوجائے لیکن اس سے ہمارے ملک کا وقار مجروح ہوگا اور طویل مدتی پروگرام اور پالیسی میں کو زبردست نقصا ن ہوگا۔
جماعت اسلامی ہند کے جنرل سکریٹری انجینئر محمد سلیم نے اس دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 1992میں اسرائیل کے ساتھ قائم ہونے والا سفارتی تعلق اب گہری دوستی میں تبدیل ہوگیا ہے اور انہوں نے دعوی کیا کہ اس تعلق کے نتیجے میں مسلمانوں پر مظالم بڑھ گئے ہیں۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اسرائیل ہمارے اندرونی معاملات سمیت سیکورٹی اور تربیت میں بھی دخیل ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کہا گیا تھا کہ اسرائیل کو دہشت گردی سے لڑنے کا تجربہ ہے لیکن سچ بات یہ ہے کہ اسرائیل کو دہشت گردی سے نہیں بلکہ بے گناہوں لوگوں کو قتل کرنے کا تجربہ ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ پورے ملک کو اسرائیل بنانا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جو کچھ اسرائیل فلسطین میں کر رہاہے وہ ہندوستان میں نہیں ہونے دیاجائے گا اور اسرائیل سے دوستی کا راستہ تباہی کا راستہ ہے۔
مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے کہا کہ اگر ہمارے ملک کے حکمرانوں کے لئے اسرائیل رول ماڈل ہے تو یہ ہندوستان کے لئے شرم کی بات ہے اور ہندوستان نے ہمیشہ مظلوموں کا ساتھ دیا ہے۔ انہوں نے جمعیتہ علمائے ہند کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ملک کے عوام کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ مظلوم کے ساتھ ہے اور ظالم کوئی بھی ہو اس کے خلاف میدان میں آئے گی۔ اس موقع پر مولانا مفتی عفان منصورپوری نے کہا کہ ہندوستان ہمیشہ فلسطینی کاز کی حمایت کرتا رہا ہے لیکن حالیہ چند برسوں میں اسرائیل کے ساتھ دوستی گاڑھی ہورہی ہے اور یہ صرف مسلم دشمنی ہی نہیں ہے بلکہ ملک دشمنی بھی ہے۔
ملی گزٹ کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں نے دعوی کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ایسے ملک کے صدر کا استقبال کیا جارہا ہے جس پر خون کے دھبے ہیں اور اسرائیل اپنے قیام سے لیکر آج روزانہ کوئی نہ کوئی علاقہ یا کسی نہ کسی فلسطینی کو ہلاک کرتا ہے۔
مجلس علمائے ہند کے جنرل سکریٹر ی مولانا جلال حیدر نقوی نے کہاکہ ملک جتنا اسرائیل کے قریب رہا ہے وہ اتنا ہی ذلیل ہوا ہے اور انہوں نے دعوی کیا کہ ہندوستان کے عوام مودی حکومت کے فیصلے کے خوش نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ دیگر مقررین میں انہد کی سربراہ شبنمی ہاشمی، عمیق جامعی اور دیگر لوگوں نے بھی اپنے خیالات کا اظہا ر کیا اور جمعیتہ کے اس احتجاج میں شریک ہونے والی تنظیموں میں جماعت اسلامی ہند، آل انڈیا مجلس مشاورت، انہد، جامع مسجد یونٹی فورم، اے آئی یو ڈی ایف، جامعہ کلیکٹو، آل انڈیا تنظیم انصاف، دہلی، میوات وکاس سبھا، میوات کارواں، شولڈر ٹو شولڈر، فلسطین سولیڈرٹی کمپین لندن شامل تھیں۔