نئی دہلی۔ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف دنیا بھر میں سب سے طویل اور پرامن احتجاج کی علامت بن چکے شاہین باغ کی ' دبنگ' دادیوں سے میں ایک بلقیس دنیا کی 100 سب سے زیادہ بااثر شخصیات میں شامل ہو گئی ہیں۔ دادی کا کہنا ہے کہ پہلے کوروناوائرس سے لڑائی لڑنی ہے اور اس کے بعد سی اے اے کے خلاف لڑائی لڑنی ہوگی۔ وہ ایک بار پھر احتجاج کرنے اور بچوں کے ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار ہیں۔
82 سال کی بلقیس نے کہا وزیر اعظم مودی ان کے بیٹے ہیں، شہریت ترمیمی قانون واپس لیا جانا چاہیے۔ پہلے کورونا سے لڑائی لڑنی ہے اور اس کے بعد سی اے اے کے خلاف احتجاج کے لیے تیار ہوں۔ بلقیس دادی کا کہنا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بچوں کی پٹائی کے بعد احتجاج شروع ہوا تھا۔ میں بچوں کے اوپر ہوتے اس ظلم کو نہیں سہ سکتی۔
بلقیس (، 82) ، اترپردیش کے ہاپوڑ ضلع کے کرانا گاؤں سے تعلق رکھتی ہیں، اپنے شوہر کی وفات کے بعد وہ گزشتہ ایک دہائی سے اپنے پانچ بیٹوں کے ساتھ دہلی میں رہائش پذیر ہیں۔ بلقیس دادی نے نہ تو اسکول کی تعلیم حاصل کی ہے اور نہ ہی کوئی دوسری تعلیم، وہ صرف قرآن پڑھنا جانتی ہیں۔ بلقیس (bilkis dadi) دادی کا کہنا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بچوں کی پٹائی کے بعد احتجاج کی شروعات ہوئی تھی، پہلے خواتین کم تعداد میں پہنچی تھیں اور بعد میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
ٹائم میگزین کی جاری کردہ تازہ فہرست میں انہیں 'آئیکن' زمرے میں جگہ دی گئی ہے۔ بلقیس ان ہزاروں احتجاج کاروں میں سے ایک تھیں جو دہلی کے جامعہ نگر واقع شاہین باغ میں شہریت ترمیمی قانون (CAA) کے خلاف مہینوں بیٹھی رہیں۔ ان کے بارے میں معروف خاتون صحافی رعنا ایوب نے لکھا ہے کہ ' بلقیس کو مشہور ہونا چاہئے تاکہ دنیا تاناشاہی کے خلاف جدوجہد کی طاقت کا احساس کرے'۔
دنیا کی مشہور ٹائمز میگزین نے دنیا کے 100 با اثر افراد کی فہرست جاری کی ہے۔ اس فہرست میں وزیر اعظم مودی سے لے کر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تک کے نام شامل ہیں لیکن سب سے حیران کن نام شاہین باغ کی دادی بلقیس (bilquis) کا ہے جو اس فہرست میں شامل ہے۔ 82 سالہ بلقیس کو شہریت ترمیمی قانون اور این پی آر ، این آر سی کے خلاف احتجاج میں خواتین کی رہنمائی ، شاہین باغ کی آواز بننے کے لئے شامل کیا گیا ہے۔
بلقیس دادی کے بیٹے منظور احمد بتاتے ہیں کہ جب وہ پہلی بار احتجاج میں گئی تھی تو گھر میں کسی کو بتائے بغیر گئیں۔ ان کی تلاش کی گئی بعد میں جب وہ گھر واپس آئیں تو انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ مظاہرے میں تھیں۔ گھر والوں کی جانب سے اور متعدد بار ہم نے ان کی عمر اور صحت کی وجہ سے انہیں احتجاج میں جانے سے منع کیا تھا لیکن انہوں نے یہ بات نہیں مانی۔ کئی بار ان کی طبیعت خراب ہوگئی لہٰذا سردیوں میں جب ان کی طبیعت خراب تھی تو ان کو ایک دن چھوڑ کر دوسرے دن شاہین باغ کے مظاہرے میں لے جایا جاتا تھا لیکن جبکی طبیعت ٹھیک ہوتی تو وہ روزانہ جاتی تھیں۔
بتا دیں کہ شاہین باغ میں شہریت ترمیمی قانون کو واپس لینے کی مانگ کو لے کر 101 دنوں تک احتجاجی مظاہرہ جاری تھا۔ جب ہندستان میں کورونا کے معاملے بڑھنے لگے تو احتیاطا دہلی پولیس نے مظاہرہ گاہ کو خالی کروا دیا تھا۔ جب وزیر اعظم نریندر مودی نے مارچ میں ' جنتا کرفیو' کا اعلان کیا تھا تب بلقیس نے کہا تھا ' اگر وزیر اعظم کو ہماری صحت کی اتنی ہی فکر ہے تو آج اس کالے قانون کو منسوخ کر دیں پھر ہم بھی اتوار کے دن جنتا کرفیو میں شامل ہو جائیں گے'۔