مسلم خاندان نے شیو مندر کے نام کی زمین، وصیت نامہ لکھ کر پیش کی آپسی بھائی چارے اور گنگا۔جمنی تہذیب کی مثال
ایک طرف جہاں ملک میں فرقہ پرست افراد اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیے سماج کو تقسیم کرنے کی فراق میں رہتے ہیں۔ وہیں ملک میں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو اپنے عمل سے ہندو مسلم بھائی چارے اور مشترکہ تہذیب کو پیش کرنے کی مثال بن جاتے ہیں۔ میرٹھ کے برہم پوری علاقے کے اندرا نگر محلہ میں ہی ایک ایسی ہی گنگا جمنی تہذیب کی مثال دیکھنے کو ملی ہے

ایک طرف جہاں ملک میں فرقہ پرست افراد اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیے سماج کو تقسیم کرنے کی فراق میں رہتے ہیں۔ وہیں ملک میں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو اپنے عمل سے ہندو مسلم بھائی چارے اور مشترکہ تہذیب کو پیش کرنے کی مثال بن جاتے ہیں۔

میرٹھ کے برہم پوری علاقے کے اندرا نگر محلہ میں ہی ایک ایسی ہی گنگا جمنی تہذیب کی مثال دیکھنے کو ملی ہے جہاں 44 برس پہلے قاسم علی نے اپنی 200 گز زمین شیو مندر کے نام زبانی طور پر عطیہ کر دی تھی لیکن اب چالیس برس سے زیادہ کا وقت گزر جانے کے بعد قاسم علی کے وارثوں نے دیوالی کے موقع پر اب یہ زمین شیو مندر کے نام کرتے ہوئے وصیت نامہ پیش کر دیا ہے۔ وصیت نامہ پیش کرنے کے ساتھ ہی اب اس شیو مندر کی انتظامیہ کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔

قاسم علی کے وارثوں کے اس عمل سے محلہ کے لوگ اور مندر انتظامیہ کمیٹی کے ذمہ داران خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اور اس عمل کو آپسی بھائی چارے اور ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب کی بہترین مثال تصّور کر رہے ہیں۔

قاسم علی کے فرزند عاصم علی کے مطابق آج کا بسا ہوا اندرا نگر محلہ ان کے پرکھوں کی بینامی زمین پر ہی آباد ہوا ہے۔ اسی علاقے نے 200 گز زمین مندر تعمیر کے لیے بھی ان کے والد قاسم علی نے آج سے چھیالیس برس قبل عطیہ کر دی تھی لیکن قانونی طور پر کوئی کاغذی کارروائی انجام تک نہیں پہنچی لیکن چھیالیس برس بعد اب ان کے وارثین نے اس زمین کا وصیت نامہ شیو مندر کے نام کر دیا ہے اور ایک کمیٹی تشکیل کرکے اس کی ذمہ داری بھی علاقے کے لوگوں کو سونپ دی ہے۔

عاصم علی کے مطابق وہ اپنے والد کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرتے ہوئے آپسی بھائی چارے اور محبت کی وہی مثال پیش کرنا چاہتے ہیں جو ان کے بزرگوں نے آج سے چالیس برس قبل پیش کی تھی۔ (رپورٹ اور تصویریں: تنظیر انصار، میرٹھ: نیوز 18 اردو۔)