کالج کے دنوں میں کرکٹ کے میدان میں بطور تیز گیندباز اترنے والے اسدالدین اویسی نے تقریبا ڈھائی دہائی پہلے جب حیدرآباد کے چار مینار علاقے سے اپنی سیاسی اننگز کا آغاز کیا تھا تو شاید ہی کسی کو اندازہ رہا ہو گا کہ آگے چل کر ان کے سیاسی باونسر مسلم ووٹوں والے وکٹ پر جمی پارٹیوں کے لئے پریشانی کا سبب بن جائیں گے۔ پہلے مہاراشٹر اور اب بہار، اسی بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ آنے والے وقت میں حیدرآباد کا یہ رکن پارلیمنٹ ان کا درد سر اور بڑھا سکتا ہے۔ (فوٹو: فیس بک/ اسدالدین اویسی)۔
اویسی کی قیادت میں ایم آئی ایم نے 2014 میں جب حیدرآباد کے ' دارالسلام' (پارٹی صدر دفتر) سے نکل کر مہاراشٹر کی سیاست میں دستک دی تو وہ پہلی بار قومی سیاسی اختلافات کا حصہ بنی اور اسے کانگریس اور این سی پی کے لئے خطرے کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ اس کے بعد 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں مہاراشٹر کی اورنگ آباد سیٹ اور پھر اسمبلی الیکشن میں دو سیٹیں جیت کر اویسی کی پارٹی نے ریاست میں ایک بار پھر اپنی موجودگی کا احساس کرایا۔ اب بہار میں اس کی کارکردگی نے پارٹی اور اویسی کو موجودہ سیاسی بحث کے مرکزی نکتے میں لا دیا ہے۔ (فوٹو۔ فیس بک/ اسدالدین اویسی)۔
حیدرآباد سے دو دہائی تک لوک سبھا کے رکن رہے صلاح الدین اویسی کے سب سے بڑے بیٹے اسدالدین اویسی نے سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے کرکٹ کے میدان میں ہاتھ آزمایا اور بطور تیز گیندباز یونیورسیٹی کی سطح پر کھیلے۔ لندن سے وکالت کی پڑھائی کر کے لوٹنے کے بعد انہوں نے پہلی بار سال 1994 میں سیاسی سفر کی شروعات کی۔ وہ حیدرآباد کی چار مینار اسمبلی سیٹ سے پہلی بار الیکشن لڑے اور جیتے۔ سال 2004 میں وہ پہلی بار لوک سبھا پہنچے اور اس کے بعد ہر لوک سبھا الیکشن میں جیت حاصل کی۔ (فوٹو۔ فیس بک/ اسدالدین اویسی)
اویسی اور ایم آئی ایم کے قومی سیاست میں عروج کو کانگریس اور اس کی حلیف پارٹیاں بی جے پی مخالف ووٹوں کو تقسیم کرنے والی طاقت کے طور پر دیکھتی ہیں۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری طارق انور کا کہنا ہے ' اویسی کی سیاست فرقہ وارانہ ہے۔ ان کا ابھرنا ہمارے ملک اور جمہوریت کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ کانگریس کو سبھی کٹرواد طاقتوں کے خلاف لڑنا ہو گا اور عوام کو سمجھنا ہو گا کہ ان کی سیاست قومی مفاد میں نہیں ہے'۔
بہار اسمبلی الیکشن میں اچھی خاصی مسلم آبادی والے علاقہ سیمانچل میں اویسی کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم نے پانچ سیٹوں پر جیت حاصل کر سیاسی ماہرین کو چونکا دیا ہے۔ کانگریس اور آر جے ڈی کا مہا گٹھ بندھن اقتدار کی دہلیز تک پہنچ کر بھی رک گیا تو اس کی ایک بڑی وجہ ایم آئی ایم کے مسلم ووٹوں میں سیندھ لگانے کو ہی مانی جا رہی ہے۔ (فوٹو۔ فیس بک/ اسدالدین اویسی)
سال 2014 میں مرکز میں نریندر مودی کی حکومت بننے کے بعد سے اویسی مسلم سماج سے منسلک معاملوں کو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اٹھا کر اپنا سیاسی گراف بڑھاتے چلے گئے۔ حالیہ سالوں میں انہوں نے تین طلاق کے قانون، شہریت ترمیمی قانون اور بھیڑ کے ذریعہ قتل واقعات کے خلاف بڑی بیباکی سے اپنے رائے رکھی اور اس طرح انہوں نے مسلم سماج میں اپنے حامیوں کا ایک بڑا گروہ تیار کر لیا۔ مانا جاتا ہے کہ ان کے حامیوں میں زیادہ تر نوجوان ہیں۔ (فوٹو۔ فیس بک/ اسدالدین اویسی)
اویسی نے سیاست کے مرکز میں مسلمانوں کے ساتھ دلتوں کو لانے کی بھرپور کوشش کی اور اسی کوشش میں وہ اکثر ' جئے بھیم۔ جئے میم' کا نعرہ لگاتے ہیں۔ مہاراشٹر میں مسلم۔ دلت اتحاد والے سیاسی تجربے کے تحت انہوں نے ' ونچت بہوجن اگھاڑی' کے ساتھ اتحاد کیا، لیکن ان کے اس تجربے کو متوقع کامیابی نہیں ملی۔ (فوٹو۔ فیس بک/ اسدالدین اویسی)
اویسی سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں پسماندہ مسلمانوں کے لئے ریزرویشن پر زور دیتے ہیں۔ ان پر اکثر وبیشتر مسلم فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے کے الزام بھی لگتے رہتے ہیں، لیکن وہ اس سے انکار کرتے ہوئے کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ان کی سیاست صرف ہندوتووادی نظریات کے خلاف ہے۔ (فوٹو۔ فیس بک/ اسدالدین اویسی)