اجودھیا کے متنازعہ ڈھانچہ بابری مسجد انہدام کے تقریبا 28 سال بعد 30 ستمبر کو لکھنئو کی خصوصی سی بی آئی عدالت اپنا فیصلہ سنانے جا رہی ہے۔ اجودھیا میں 6 دسمبر 1992 کو رونما ہوئے واقعہ نے نہ صرف ملک کی سیاست کو نیا موڑ دیا بلکہ بلکہ سماجی ومذہبی تانے بانے کو بھی زبردست چوٹ پہنچائی۔ آج بھی ایک فریق اس دن کو شوریہ دیوس کے طور پر مناتا ہے تو کوئی کالے دن کے طور پر۔ اب جب فیصلے کی گھڑی کا وقت آ پہنچا ہے تو سبھی کی دھڑکنیں تیز ہو گئی ہیں۔ اس معاملہ میں بی جے پی، شیوسینا اور وشو ہندو پریشد کے سینئر لیڈروں کے ساتھ سادھو سنت بھی ملزم ہیں۔
دراصل، اب جب فیصلے کی گھڑی نزدیک ہے تو ان کرداروں کا ذکر بھی بنتا ہے جو رام مندر تحریک سے وابستہ ہوئے اور ہیرو بنے۔ پورے تنازعہ کی بات کریں تو سب سے پہلا نام سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کا ہی آتا ہے۔ انہوں نے 1985 میں متنازعہ ڈھانچہ کے احاطے کو کھولنے کا فیصلہ لیا۔ حکومت نے عدالت سے کہا کہ تالا کھولنے سے کوئی ہنگامہ نہیں ہو گا۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ تنازعہ اس قدر بھڑکا کہ 6 دسمبر 1992 کی تاریخ سیاہ دن کے طور پر تاریخ میں درج ہو گئی۔
جب تالا کھلا تو اقتدار میں واپسی کی راہ دیکھ رہی بی جے پی نے اسے سیاسی مدعا بنایا۔ اس کی قیادت کی سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی نے۔ ستمبر 1990 میں انہوں نے رام جنم بھومی تحریک کو آگے بڑھاتے ہوئے جنوب سے اجودھیا تک 10 ہزار کلومیٹر طویل رتھ یاترا شروع کی۔ عالم یہ ہوا کہ رام مندر تحریک سے ملک بھر کے کارسیوک جڑ گئے۔ پھر 6 دسمبر 1992 کے دن جو کچھ بھی ہوا اس سے ملک سلگ اٹھا۔ مرکز کی نرسمہا راو حکومت ہل گئی۔ یوپی کے اقتدار میں بی جے پی کی واپسی ہوئی تو لوک سبھا میں بھی اس کی سیٹیں بڑھیں۔ سی بی آئی کی فرد جرم کے مطابق، اڈوانی اجودھیا میں متنازعہ بابری مسجد گرانے کی'سازش' میں پیش پیش تھے۔
لیکن بابری مسجد انہدام کا چیف آرکیٹیکٹ اگر کسی کو کہا جا سکتا ہے تو وہ وی ایچ پی کے سابق صدر آنجہانی اشوک سنگھل تھے۔ سی بی آئی کی فرد جرم کے مطابق، 20 نومبر 1992 کو اشوک سنگھل نے اس وقت کے شیوسینا سربراہ بال ٹھاکرے سے ملاقات کر کے انہیں کارسیوا میں حصہ لینے کی دعوت دی۔ اس کے بعد 4 دسمبر 1992 کو بال ٹھاکرے نے شیوسینکوں کو اجودھیا جانے کا حکم دیا۔ فرد جرم میں اشوک سنگھل پر الزام ہے کہ وہ 6 دسمبر کو رام کتھا کنج پر بنے اسٹیج سے نعرہ لگوا رہے تھے کہ ' رام للا ہم آئے ہیں، مندر وہیں بنائیں گے۔ ایک دھکا اور دو بابری مسجد توڑ دو'۔
بابری مسجد انہدام معاملہ کے اگلے کردار کا نام ہے بی جے پی کے سابق رکن پارلیمنٹ ونے کٹیار۔ رام مندر تحریک کو تیز کرنے کے لئے جب وی ایچ پی نے بجرنگ دل تشکیل دی تو اس کی کمان نوجوان ونے کٹیار کو سونپی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ بجرنگ دل کارکنان نے ہی رام جنم بھومی تحریک کو مشتعل بنایا۔ سی بی آئی کی فرد جرم کے مطابق، ونے کٹیار نے 6 دسمبر کو اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ' ہمارے بجرنگیوں کا جوش سمندری طوفان سے بھی آگے بڑھ چکا ہے جو ایک نہیں تمام بابری مسجدوں کو منہدم کر دے گا'۔
6 دسمبر کو جب بابری مسجد منہدم کی گئی اس وقت اوما بھارتی دیگر بی جے پی اور وی ایچ پی لیڈروں کے ساتھ جائے واردات پر تھیں۔ بابری مسجد انہدام میں ان کے رول کا بھی تذکرہ ہے۔ حالانکہ اوما بھارتی نے بھیڑ کو اکسانے کے الزامات سے انکار کیا ہے۔ لیکن یہ بھی کہا کہ انہیں اس کا کوئی افسوس نہیں ہے اور وہ ڈھانچہ گرائے جانے کی اخلاقی ذمہ داری لینے کو تیار ہیں۔