اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے نتائج سے پہلے ملک بھر کے بیشتر ایگزٹ پول نے بی جے پی کو سب سے بڑی پارٹی یا واضح اکثریت کے ساتھ حکومت بناتے دکھایا ہے۔ اب ووٹروں اور دارالحکومت لکھنؤ میں اقتدار کے گلیارے میں سوال عام ہے کہ بی جے پی کو اگر عوام کی حمایت حاصل ہوجاتی ہے ، تو وزیر اعلی کی کرسی پر کون بیٹھے گا؟۔ تاہم ماناجارہا ہے کہ اگر بی جے پی اقتدار میں آتی ہے تو وزیر اعلی کے لئے جم کر گھمسان مچے گی ۔ آئیے دیکھتے ہیں بی جے پی میں کون کون ہیں وزیر اعلی کے عہدہ کے امیدوار ۔
راج ناتھ سنگھ : اتر پردیش کے وزیر اعلی رہ چکے ہیں اور پارٹی سے لے کر آر ایس ایس تک میں ان کی گرفت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ وزیر اعلی کے عہدہ کے دعویداروں میں راج ناتھ سنگھ کا نام سب سے آگے ہے۔ لیکن مرکز میں وزیر داخلہ کے عہدے کی اہم ذمہ داری اور قومی سیاست میں مودی کے بعد سب سے اہم چہروں میں شمار ہو چکے راج ناتھ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ شاید ہی اتر پردیش کی سیاست میں لوٹنا چاہیں۔
کیشو پرساد موریہ : 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں جیت کے بعد پارٹی میں کیشو پرساد موریہ کے قد میں کافی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ یوپی میں بی جے پی مسلسل او بی سی ووٹروں کو نشانہ بناتی نظر آرہی ہے۔ ظاہر ہے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بھی پارٹی کی توجہ یوپی میں تقریبا 54 فیصد ووٹر والے او بی سی ووٹروں پر رہے گی اور ایسی صورت میں او بی سی برادری سے آنے والے کیشو کی ویر اعلی عہدہ کے لئے دعویداری مضبوط ہوتی نظر آتی ہے۔
سری کانت شرما : یوپی انتخابات میں قومی وزیر اور قومی ترجمان کی ذمہ داری سنبھال رہے سری کانت شرما کو بی جے پی کی طرف سے متھرا کے ورنداون سیٹ سے امیدوار کا اعلان کرنے کے بعد ہی انہیں وزیر اعلی عہدہ کا دعویدار مانا جانے لگا ہے۔ انہیں امت شاہ اور ارون جیٹلي کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔ ان کی دعویداری اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ بی جے پی سربانند سونووال کو آسام کا وزیر اعلی بنا چکی ہے، وہ بھی قومی ترجمان ہی تھے۔ آر ایس ایس سے قریبی اور نوجوان چہرے کے مثبت پوائنٹ مانے جاتے ہیں۔
یوگی آدتیہ ناتھ : پارٹی کے فائر برانڈ لیڈروں میں سے ایک یوگی آدتیہ ناتھ کا نام پوروانچل کی سیاست میں اہم سمجھا جاتا ہے۔ ان کی اس تصویر کا استعمال پارٹی نے اس بار کے انتخابات میں بھی جم کر کیاہے ۔ مغربی اترپردیش سے لے کر مشرقی اتر پردیش تک اسٹار کمپینر کی حیثیت سے آدتیہ ناتھ کی تابڑ توڑ ریلیاں بھی اس بات کی گواہ ہیں۔ آر ایس ایس میں بھی ان کی اچھی پکڑ مانی جاتی ہے، لیکن پارٹی میں یوگی کے لئے کافی چیلنجز بھی ہیں۔
اوما بھارتی : 2012 کے اسمبلی انتخابات میں جب مدھیہ پردیش کی لیڈر اوما بھارتی کو بی جے پی نے ٹکٹ دیا تو ان کا نام اترپردیش میں وزیر اعلی کے عہدہ کے اہم دعویداروں میں شمار ہو گیا ۔ لیکن اس الیکشن میں بی جے پی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی۔ 2014 میں پارٹی نے اوما کو جھانسی سے الیکشن لڑایا اور وہ یہاں سے ممبر پارلیمنٹ بنیں، لیکن چرکھاری سیٹ پر ضمنی انتخابات میں بی جے پی کو شکست ملی۔ مرکزی وزیر اوما بھارتی کو یوپی انتخابات میں بی جے پی کے پوسٹر میں نمایاں جگہ ملی اور انہوں نے تشہیری مہم میں بھی جم حصہ لیا۔
اسمرتی ایرانی : اسمرتی ایرانی بھی وزیر اعلی عہدہ کی پسند بن سکتی ہیں۔ اسمرتی نہ صرف ایک اسٹار پروموشنل ہیں، بلکہ اچھی اسپیکر بھی ہیں۔ نوجوانوں اور خواتین میں کافی مقبول بھی ہیں۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں امیٹھی سے کانگریس نائب صدر راہل گاندھی کے مقابلہ میں اسمرتی کو اتارا گیا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ انتخابات ہارنے کے بعد بھی انہیں کابینہ میں شامل کیا گیا۔